وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی اہمیت یہی ہے کہ انہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو بھی آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کو کہا۔
وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ عمران خان اہم ہیں اور ان کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ سابق وزیراعظم کے وزیر خزانہ نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو کال کی اور آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کو کہا۔ خیبر پختونخوا کا وزیر تو مان بھی گیا تھا تاہم پنجاب کے وزیر نے ان کو جواب دیا کہ کچھ خدا کا خوف کریں۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس سے پاکستان برباد ہو جائے گا۔ آپ آئی ایم ایف معاہدے کے حوالے سے پاکستان کے خلاف کیوں بات کر رہے ہیں۔ جس پر اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات کو چھوڑو جو کپتان کہہ رہے ہیں وہ کرو۔
وزیر مملکت نے مزید کہا کہ اس بات کا تو چیئرمین پی ٹی آئی ثبوت دے چکے ہیں کہ ان کی ذاتی سیاست کے راستے میں اگر پاکستان بھی آئے تو اسے بھی برباد کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
مصدق ملک نے آئی ایم ایف ٹیم کی پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے ختم ہوتے وقت پیٹرول پر سبسڈی دے کر آئی ایم ایف پروگرام برباد کیا۔ اب اگر انہوں نے آئی ایم ایف معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے تو اچھی بات ہے۔ ان کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہر ایک کو مائی باپ بنا لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے امریکہ کے خلاف بھی کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ پھر ان کی خاتون کانگریس رکن کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ ان کے حق میں ایک بیان جاری کر دیں۔ آپ خط لکھیں گی تو بہت سی چیزیں ہمارے حق میں ہو جائیں گی۔ تو عمران خان صاحب پل میں توشہ پل میں ماشہ ہوتے ہیں۔ کبھی دشمن کہتے کبھی دوست۔
مصدق ملک نے کہا کہ اگر آئی ایم پروگرام نہ بھی ہوتا تو ہم کوشش کر رہے ہیں گردشی قرضہ 'ویل ہیڈ' کی حد تک اکٹھا نہ ہو، تو اس کے لیے اوگرا کی طرف سے جو بھی نئی تجاویز آئیں گی ان کو سامنے رکھتے ہوئے غریب طبقے پرکم اور صاحبِ استطاعت طبقے پر زیادہ بوجھ ڈالیں اور گردشی قرضے کا بہاوَ روک کر رکھیں۔ اور موجودہ قرض کو آہستہ آہستہ لوٹا دیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف ٹیم کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی سے زمان پارک میں ملاقات کی گئی۔ ملاقات میں اسٹاف لیول معاہدے سے متعلق بات چیت ہوئی۔ پی ٹی آئی نے انتخابات سے پہلے نئی حکومت کے قیام تک آئی ایم ایف سے ہونے والے 3 ارب ڈالر معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے کہا کہ کم آمدنی والے طبقے کو مہنگائی سے بچانے کیلیے پروگرام پر زور دیتے ہیں اور ہم سیاسی استحکام کو معاشی استحکام کیلیے لازمی سمجھتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ آزادانہ اور بروقت انتخابات کے بعد نئی حکومت اصلاحات کا آغاز کرے گی اور اقتصادی تبدیلی اور طویل مدتی بنیادوں پر معاشی استحکام لائے گی۔
آئی ایم ایف وفد کی قیادت ایستھر پریز روئز کر رہی تھیں جبکہ ملاقات میں آئی ایم ایف کنٹری چیف نیتھن پورٹر امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے بذریعہ ویڈیو لنک شامل ہوئے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، شوکت ترین، عمر ایوب، ثانیہ نشتر، شبلی فراز، تیمور جھگڑا اور مزمل اسلم ملاقات میں موجود تھے۔
قبل ازیں آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی۔ اس دوران حکومت میں شامل جماعت نے آئی ایم ایف پروگرام آمادگی ظاہر کی۔ پیپلز پارٹی کے وفد میں وفاقی وزیر تجارت نوید قمر اور سلیم مانڈوی والا شامل تھے۔
ملاقات کا مقصد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹینڈ بائی معاہدے پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ وزارت تجارت کے اعلامیہ کے مطابق پیپلز پارٹی کے وفد نے قومی مفاد میں پروگرام کی حمایت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کے نمائندے اور پیپلز پارٹی کی فنانس ٹیم کے درمیان ہونے والی بات چیت کو پاکستان میں معاشی اصلاحات اور استحکام کی جانب ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وزیر تجارت نوید قمر نے فنانس ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے سٹینڈ بائی معاہدے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور پروگرام پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلیے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
ادھر آئی ایم ایف نمائندہ برائے پاکستان نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ایستھر پریز روئز پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے رابطے کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے 3 ارب ڈالر کے نئے قرض پروگرام میں معاونت چاہتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ رابطوں کا مقصد پالیسیز میں تسلسل کیلیے تعاون حاصل کرنا ہے۔ آئندہ الیکشن کے بعد سیاسی حکومت کو ابھی سے پالیسیز سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے قرض پروگرام کی منظوری چند دنوں میں ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں دی جانی ہے۔