حکمراں ہوگئے کمینے لوگ: ’’چین کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی تبدیل ہو چکی ہے‘‘

حکمراں ہوگئے کمینے لوگ: ’’چین کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی تبدیل ہو چکی ہے‘‘
موجودہ حکومت کب، کیسے، کن مقاصد کے تحت اور کس کی سازش سے معرض وجود میں آئی یہ اب کوئی راز کی بات نہیں رہی، لہذا اس پر بحث کرنا فضول ہے کیونکہ ان تمام باتوں سے دنیا خوب اچھی طرح واقف ہے۔ دنیا اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ جن مقاصد کیلئے یہ حکوت لائی گئی تھی، وہ بہت حد تک پورے ہو چکے ہیں۔

ایک ایسا ملک جو بتدریج ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اسے ریوس گیر لگا کر تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا گیا۔ صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں پانچ اعشاریہ آٹھ کی اوسط سے ترقی کرتا ملک منفی ایک اعشاریہ چھ تک پہنچ گیا۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی بات تو خواب ہوئی کہ کاروبار بند ہونے سے لاکھوں لوگ بیروزگار ضرور ہو گئے۔

اشیا خرد و نوش کو ہی لے لیں تو کل تک ۵۲ روپیہ کلو ملنے والی چینی آج ۸۵ سے ۹۰ تک میں دستیاب ہے۔ آٹے کا بیس کیلو کا تھیلا جو پچھلی حکومت کے دور میں ۶۴۰ روپیہ میں دستیاب تھا اب ۹۷۵ کا مل رہا ہے۔ یہی حال گوشت، سبزی اور دیگراشیا کا ہے۔ حکومت بڑھتی قیمتوں کو کرونا کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑا رہی ہے جبکہ تباہی سے تو پہلے سال میں ہی لوگواں کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی تھیں۔

سی پیک جس کو گیم چینجر کہا جا رہا تھا، موجودہ دور میں اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس کے چیئرمین خیر سے اب وزیراعظم کے معتمد خاص برائے اطلاعات بھی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ وزیر اعظم کے معتمد خاص ڈاکٹر شہباز گل نے چین کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی ہے، وہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چین کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی تبدیل ہو چکی ہے۔ چین وہ ملک ہے جس نے ہر مسئلہ پر ہماری کھل کر حمایت کی ہے۔ کل کو ہمیں اگر پھر کسی مسئلہ پر چین کی حمایت درکار ہوئی تو کس منہ سے بات کریں گے۔ بھارت نے کشمیر ہڑپ کر لیا لیکن ہم نے رسمی سا احتجاج ضرور کیا جس کی ہمیں اجازت دی گئی تھی لیکن کیا کریں کہ امریکہ اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے یہ ضروری تھا۔

ساری دنیا کی طرح پاکستان بھی کرونا کی لپیٹ میں ہے لیکن نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ اس موذی وبا کے بارے میں حکومت کی پالیسی آج تک واضع نہیں ہو سکی۔ ایک سانس میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا کہتے ہیں تو دوسری ہی سانس میں اس کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں۔ عید پر عوام کیلئے تمام تفریحی مقامات بند کر دیئے گئے لیکن خود وزیراعظم پنکی بیگم کیساتھ عید کی چھٹیاں منانے نتھیا گلی چلے گئے۔ کابینہ کا اجلاس ہو یا کہیں کا دورہ ہو وزیراعظم اور ان کے وزرا بغیر ماسک کے ہوتے ہیں۔ جب آپ خود اپنے ہی بنائے ہوئے اصول پر عمل نہیں کریں گے تو عوام کو ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔

حکومت کی ساری توجہ کا مرکز حزب اختلاف اور خاص کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف مقدمات بنانے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے پر مرکوز ہے جبکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت آج تک ملک کی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا جبکہ دوسری طرف چینی پر اپنے ہی بنائے ہوئے کمیشن کی رپورٹ میں ملزم نمبر ایک قرار دیئے گئے جہانگیر خان ترین کو فرار ہونے میں مدد دی جاتی ہے کیونکہ جہانگیر خان ترین کہہ چکے ہیں کہ مجھے ہاتھ لگایا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سوال تو بنتا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد جہانگیر خان ترین کا نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ مافیاز کو توڑنے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم نے جب پٹرول کی قیمت کم کی تو ملک سے پٹرول ہی غائب ہو گیا۔

کہتے ہیں کہ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کُل سیدھی وہی حال اس حکومت کے کارپردازان کا ہے موضوع کوئی بھی ہو حکومت میں شامل ہر شخص ایک ماہر کی طرح پریس کانفرنس کرنے بیٹھ جاتا ہے لیکن ہر پریس کانفرنس کے بعد حکومت کے منہ پر کالک مل کر ہی اٹھتا ہے۔ انقلابی شاعر حبیب جالب نے شائد اسی ماحول کا نقشہ کھینچا تھا؛

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔