قدرت کا نظام انصاف و انتقام بھی کیسا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ہی بے نقاب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک مقولہ تو ہر کسی نے سنا ہی ہو گا کہ انسان جب بھی کوئی کام فطری اصولوں کے خلاف کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو ملامت کرتا ہے جو ایک الارم ہوتا ہے کہ وہ اس کام سے باز رہے مگر جب وہ اس سے نہیں رکتا تو پھر اس کے اپنے اندر ایک افسوس سا ضرور موجود رہتا ہے جو ایک حد پر پہنچنے کے بعد اس کے اندر سے اخراج چاہتا ہے۔ وہ خواہ اس کے اپنے اعتراف کی صورت میں ہو یا اس کے کسی شریک جرم کی طرف سے سامنے آئے اور اگر دونوں صورتوں کا سبب نہ بن سکے تو پھر نظام فطرت خود ہی اس کے رازوں کو فاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں کی سیاسی و ریاستی غلطیوں کی اب اخیر ہو چکی ہے اور اب یہ یکے بعد دیگرے افشا ہو رہی ہیں۔ بعض کردار تو اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خود ہی اعتراف کرنے لگے ہیں اور بعض اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بے نقاب کر رہے ہیں۔ بعض کے جرائم نظام فطرت کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کے اعمال ان کو بے نقاب کرنے لگے ہیں۔ مگر افسوس کہ بے نقاب ہونے اور ان جرائم کے ثبوت سامنے آ جانے کے باوجود بھی ہر کوئی آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو تسلیاں دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ شاید لوگ اس کو جھوٹ ہی سمجھ لیں۔ مگر وہ شاید نظام فطرت کے اگلے مرحلے سے ناواقف ہیں کہ ان رازوں کے افشا ہونے کا مقصد ہی گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ انسان اور معاشرے پر ان کے بد اثرات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا ایک احسان ہے کہ انسانی اور معاشرتی بیماری کی تشخیص دراصل اس کے علاج کا تقاضا کر رہی ہوتی ہے۔ وہ خواہ اس کی معافی تلافی سے ہو یا جزا و سزا سے۔
جو انسان یا معاشرے تشخیص کے بعد بھی اس پر توجہ نہیں دیتے، وہ کسی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ بیماری کے علاج کی پہلی ذمہ داری انسان کے اپنے اوپر آتی ہے یا جو اس کا علم رکھتے ہیں۔ جس طرح معاشروں کی بیماریوں کا علاج انسانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہوتا ہے اسی طرح ریاستی جرائم کا علاج عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ہوتا ہے اور ایک ریاست اور اس کے شہریوں کی عزت، شہرت اور دولت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری اس ریاست کے ذمہ داروں پر ہوتی ہے کہ وہ اس جرم کو معقول منطقی انجام تک پہنچائیں جس سے ریاست کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ ہو جو عوام کا ایک اجتماعی نقصان ہوتا ہے اور افراد کے ذاتی نقصان کا بھی ازالہ اور داد رسی ہو سکے۔
ریاست کے انتظامات کو سنبھالنا کوئی کھیل یا مشغلہ نہیں بلکہ عوام کی دی ہوئی ایک ذمہ داری ہے جس کی جوابدہی بھی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی یا شفافیت، غیرجانبداری اور برابری کی بنیاد پر سرانجام دینے سے ناکامی کی صورت میں پھر وہ ذمہ داران بھی اسی طرح جرم کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں جس طرح سے ان کے درپیش غلطیوں، گناہوں یا جرائم کے مرتکب۔ اپنے فرائض سے کوتاہی کی صورت میں وہ بھی فطرت کے نظام کی پکڑ میں آ سکتے ہیں اور پھر ان کی جوابدہی اور احتساب کے لئے جب نظام فطرت حرکت میں آتا ہے تو نئے ذمہ داران ان کی جگہ لے چکے ہوتے ہیں۔
اب حکومت پر یہ ذمہ داریاں آن پڑی ہیں کہ وہ بے نقاب ہونے والوں کا احتساب آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر شروع کریں اور اس کو شفافیت، غیر جانبداری اور برابری کی بنیاد پر قائم نظام کے حوالے کر دیں۔ آگے جس جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اپنے اختیارات کو قوم کی امانت سمجھ کر ان کا صحیح استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھاتا چلا جائے اور اپنے آپ کو نظام فطرت اور نظام ریاست سے سرخرو کروانے کا انتظام کرے۔ ہر انسان موجودہ وقت اور اختیار کو اللہ کا احسان سمجھے کہ اس کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اعمال کا انصاف اپنے ہاتھ سے کر لے۔ اس سے پہلے کہ وقت اور اختیار اس کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ میں چلا جائے اور کوئی اور اس کے اعمال پر فیصلے کر رہا ہو۔
یہاں ہر کوئی اسی طرح سے بے نقاب ہوتا ہے۔ فطرت کے نظام انصاف، انتقام اور مکافات عمل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اگر کوئی سمجھے تو۔
کوئی جج ہو، جرنیل ہو، بیوروکرٹ ہو یا سیاست دان؛ سب کے پاس اسی ریاست کے مہیا کردہ اختیارات اور وسائل ہیں جو اس قوم کی امانت ہیں جن کا مقصد ریاست اور عوام کی فلاح و بہبود ہے نا کہ ذاتی مفادات کے لئے ان کا استعمال اور کوئی بھی اگر ان کے استعمال میں کوتاہی، من مانی یا ان کا غلط استعمال کرے گا تو وہ اپنے آپ کو کبھی بھی بچا نہیں پائے گا۔ غور کریں تو ہمارے اردگرد ہماری آنکھوں کو دیکھنے اور ذہنوں کو سمجھنے کے لئے مشاہدے موجود ہیں اور کوئی بھی آج سے سو سال پہلے والا موجود نہیں مگر اس کے اعمال تاریخ کی امانت بن چکے ہیں۔ اس کے دنیا کے اسباب پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس نے ان کو کس طرح اکٹھا کیا اس کا حساب وہ خود دے گا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی زندگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کا نظام انصاف اپنے فیصلے سنا رہا ہے اور ہم سب کو اس سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کر رہا ہے۔
حکمران، جج، جرنیل، بیوروکریٹ، سیاست دان یا جس جس کے پاس بھی جو ذمہ داری ہے وہ یاد رکھے کہ ہم کسی کو بھی اپنی ذات کی حد تک کے نقصان اور سرزد ہونے والی غلطی کو تو معاف کر سکتے ہیں مگر ریاستی املاک کو پہنچنے والے نقصان میں پوری قوم کا حصہ ہے اور کسی کو کوئی اپنی مرضی، اس کے ساتھ تعلق، اس کی حیثیت یا اس کے رتبے کے لحاظ سے کوئی رعایت نہیں دے سکتا اور جو کوئی اس نظام قدرت کے توازن میں بگاڑ پیدا کی کوشش کرتا ہے تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
جب اللہ کے رسولﷺ کے پاس چوری کے جرم میں سزا پر سفارش کی گئی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر ان کی اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہوتیں تو یہی سزا ملتی اور وعید بھی سنائی کہ پہلے والی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ انہوں نے انصاف نہیں کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ انسان کے عیبوں پر اس وقت تک پردہ ڈالتا ہے جب تک وہ اخیر نہ کر دے۔ بالآخر وہ بے نقاب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جو لوگ اپنی زندگی میں بے نقاب ہو رہے ہیں ان پر بھی اللہ کا احسان ہے۔ ان کو موقع دیا گیا ہے کہ جن کی انہوں نے حق تلفی کی ہے، ان سے معافی تلافی کر لیں تا کہ کل تاریخ یا آخرت کے کٹہرے میں ان کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ، غلطی یا جرم نہ ہو اور وہ اس دنیا سے سرخرو ہو کر جائیں۔