پاکستان کی سیاست اور میڈیا میں آج کل سب سے ’برننگ ایشو‘ جہانگیر ترین گروپ کا قیام اور انکی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی لیڈرز کی نامزدگی ہے جس کے تحت ایم این اے راجہ ریاض کو قومی اسمبلی اور سعید اکبر نوانی کو پنجاب اسمبلی میں جہانگیر ترین گروپ کا پارلیمانی لیڈر نامزد کر دیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین گروب پر بات کرنے سے پہلے ہمیں پاکستانی سیاست کے ماضی کے کچھ اوراق پلٹنا ہونگے ۔ پاکستانی سیاست کا ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ یہاں ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتوں کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے 58/2B جیسے جمہوریت دشمن قوانین اور کبھی عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کے ذریعے ختم کیا جاتا رہا ہے۔ ہر دور میں حکومتوں کے خاتمے کیلئے طالع آزماؤں کو ابن الوقت اقتدار کے حریص نام نہاد انتخابی سیاست دان میسر رہے ہیں
چشم فلک نے دیکھا ابھی ماضی قریب میں ہی کس طریقے سے آنن فانن ایک سیاسی جماعت بنائی گئی، تمام سیاسی جماعتوں سے اقتدار کے حصول کے لیے ہر دور میں برائے فروخت لوگوں کو اکٹھا کر کے اس غیر مقبول پارٹی کو مقبول بنایا گیا، بلوچستان کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا پنجاب کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ کو حکومت بنانے سے روکا گیا، سب نے دیکھا کس طرح جہانگیر ترین اپنے جہاز میں آزاد ارکان اسمبلی کو بھر بھر کر بنی گالہ یاترا کے لیے لاتے رہے اور پی ٹی آئی کے پرچم ان کے گلے میں ڈال کر انہیں مشرف بہ تحریک انصاف کیا جاتا رہا۔ اس کے نتیجے میں ایک نااہل اور ’ڈنگ ٹپاؤ‘ شخصیت عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر مسلط کیا گیا۔
اقتدار کے نشے میں مست عمران خان یہ بھول گئے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ جو جہانگیر ترین تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین کو پی ٹی آئی میں شامل کروا کے عثمان بزدار کی حکومت بنوا سکتا ہے جب اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچے تو وہ اپنی سازشی اہلیت کا دوبارہ مظاہرہ بھی کر سکتا ہے اور اس نے ایسا کر دکھایا۔
کہاں گیا تحریک انصاف کا انصاف دن رات مافیا مافیا کا راگ الاپنے والا کپتان؟ اب ڈٹ کر کیوں نہیں کھڑا ؟ اسے ملک میں چینی بحران پیدا کرنے والے اپنی کابینہ کے وزیر نظر نہیں آ رہے۔ آخر کپتان نے چب کیوں سادھ لی ہے۔ شاید اس کا جواب اقتدار کی طوالت کا حصول ہے۔
وہی جہانگیر ترین جو کپتان کی اے ٹی ایم مشین تھی اب اس پر آڈیو میسج کی ریکارڈنگ چل رہی ہے کہ آپ کے کریڈٹ کارڈ پر مطلوبہ سہولت موجود نہیں ہے۔
ویسے تو عمران خان سوچتے کم ہی ہیں لیکن اب ان کو سوچنا پڑے گا جو غیر جمہوری کھیل انھوں نے نواز شریف حکومت کے خاتمے کے لیے کھیلا تھا مکافات عمل کی صورت ان کے سامنے آنے والا ہے۔
اس مرتبہ کام وہی ہے اور مہرہ بھی وہی ہے؎
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل
تجھ کو دنیا میں ملے گا اس کا پھل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
محمد جمیل فریدی ایک سیاسی کارکن ہیں۔ مصنف مسلم لیگ ن ضلع پاکپتن کے جنرل سیکرٹری ہیں علاوہ ازیں مختلف سیاسی اور سماجی امور پر تجزیہ اور تبصرہ بھی پیش کرتے ہیں۔