پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے . ایم پی اے نذیر چوہان کی سائبر کرائم کے مقدمے میں درخواست ضمانت پر ایڈیشنل سیشن جج راشد پھلروان نے سماعت کی۔شہزاد اکبر نے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے اپنے نمائندے ایڈووکیٹ ہارون الیاس اور فرحان اقبال کو مقرر کیا تھا.
رہائی کے بعد صوبائی وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نذیر چوہان نے کہا کہ میرا جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ نہ کوئی تعلق ہے نہ واسطہ ہے۔ جہانگیر ترین کے گروپ نے مجھے استعمال کیا۔ مجھے استعمال کرنے پر جہانگیر ترین کو شرم آنی چاہیئے۔
پی ٹی آئی کے ایم پی اے نذیر چوہان نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین نے اپنی ضرورت کے لئے مجھے استعمال کیا اور استعمال کر کے پھینکا حالانکہ انہیں ایسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہیں شرم آنی چاہئیے تھی کہ انہوں نے میرا حال تک نہ پوچھا۔
نذیر چوہان نے کہا کہ میں ہسپتال میں پڑا رہا لیکن جہانگیر ترین نے فون تک کر کے نہیں پوچھا کہ چوہان صاحب آپ کی طبیعت کیسی ہے حالانکہ جب وی چینی شوگر مافیا کے کیس میں پھنسے ہوئے تھے تو میں رمضان میں روزہ رکھ ، بارش اور گرمی کی حبس میں بھی ان کے ساتھ عدالت پہنچتا تھا۔
یاد رہے کہ نذیر چوہان نے 19 مئی کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں شہزاد اکبر کے عقیدے کے بارے میں الزام لگایا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ انہیں وزیر اعظم کے احتساب و داخلہ کے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیے تاہم شہزاد اکبر نے اگلے ہی روز لاہور کے ریس کورس تھانے میں ایک درخواست جمع کرائی تھی اور 29 مئی کو لاہور آمد پر مقامی تھانے میں مزید ایک ایف آئی آر درج کرائی.
شہزاد اکبر کی شکایت پر نذیر چوہان کو 27 جولائی کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 506، 189، 298 اور 153 کے تحت گرفتار کیا گیا نذیر چوہان کو ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ گرفتاری کے لیے دستیاب ہیں اور انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کے پاس تمام ثبوت ہیں اور وہ وزیراعظم عمران خان کو پیش کریں گے. رکن صوبائی اسمبلی گرفتاری کے لیے ریس کورس تھانے بھی گئے تھے لیکن پولیس نے انہیں یہ کہتے ہوئے گرفتار نہیں کیا کہ انہوں نے ابھی تک پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سے اجازت نہیں لی ہے تقریباً دو ماہ کے بعد ریس کورس پولیس نے نذیر چوہان کو ایل ڈی اے کے دفتر سے گرفتار کیا لیکن بعد میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں ضمانت دے دی.
تاہم نذیر چوہان کو کوٹ لکھپت سینٹرل جیل سے رہائی کے بعد پی ای سی اے کی دفعہ 11 اور 20 اور آر/ڈبلیو 298 کے تحت مشیر کی شکایت کے بعد ایف آئی اے نے سائبر قوانین کے تحت گرفتار کر لیا نذیر چوہان پر شہزاد اکبر کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بدنیتی پر مبنی اور نفرت انگیزمہم چلانے کا الزام تھا.