اقبال حسین بھی ایک ایسے ہی ہنرمند ہیں جنہوں نے اپنے آبائو اجداد کا فن چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے
امین مشعال
دہشت گردی ایک ایسا نظریہ ہے جس نے ناصرف ہزاروں گھر اجاڑے ہیں بلکہ معیشت کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے
خیبر پختونخوا 2005ء سے 2013ء تک جن حالات سے گزرا ہے اور دہشت گردی نے جس طرح یہاں پر بسنے والے ہنرمندوں کو متاثر کیا ہے، اس کا ازالہ شاید اس صدی میں ممکن نہ ہو پائے۔
اقبال حسین ایک ایسے ہی ہنرمند ہیں جو پشاور کے گورگھٹڑی بازار میں لکڑی سے مختلف قسم کے فن پارے بنانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں یہ فن اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔
دہشت گردی نے اس فن کو بھی نہیں بخشا اور اقبال حسین نے اب اپنے فن کو خیرآباد کہنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے کیوں کہ اب یہ ہنر ان کے گھر کا چولہا نہیں جلا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب یہاں پر 70 سال سے کام کر رہے تھے، انہوں نے اب یہ کام چھوڑ دیا ہے اور میں خود گزشتہ 17,18 برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ میں لکڑی کے اونٹ، ہاتھی اور گھوڑے بنا کر فروخت کرتا ہوں۔
اقبال حسین جیسے کئی اور ہنرمند بھی پشاور میں اسی فن سے وابستہ تھے لیکن اب وہ اکیلے یہ کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، یہاں پر اب صرف مقامی گاہک ہی آتے ہیں، پہلے ہمارے فن پارے کابل اور پنجاب تک جاتے تھے لیکن حالات کی وجہ سے اب کام رک گیا ہے۔
اقبال حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا، ’’ایک فن پارہ تخلیق کرنے میں کم از کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے، گاہک ہو تو جلد بک جاتا ہے۔ اب گزشتہ سات آٹھ برس سے کام بالکل بند پڑا ہے۔‘‘
خیبر پختونخوا کی حکومت نے پچھلے دور حکومت میں ’’ثقافت کے زندہ امین‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت صوبے کے ہنرمندوں اور فن کاروں کو ماہانہ معاوضہ دیا جاتا تھا لیکن اقبال حسین کا کہنا ہے کہ ان جیسے کئی اور مستحق ہنرمندوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔
ان ہنرمندوں کو نہ تو حکومت کی جانب سے کوئی توجہّ مل رہی ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے سامنے آ رہی ہے جس کے باعث اب یہ فن دم توڑ رہا ہے۔