Get Alerts

جمہوری اعلامیہ عدم توجہی کا شکار کیوں ہوا؟

جمہوری اعلامیہ عدم توجہی کا شکار کیوں ہوا؟
تحریر: (ارشد سلہری )  جمہوری نظریات، انسانی حقوق، شہری اور عوام مفادات ہوں یا معاشی اور سماجی معاملات تعمیر اور تخریب کے دنوں میں نظر انداز بھی ہوتے ہیں۔ خلاف ورزیاں بھی ہوتی ہیں۔ حکومت وقت مستحکم اقتدار کی حامل نہیں ہے۔ انتہائی نامساعد حالات میں بھی تعمیر کی جانب گامزن ہے۔

پاکستان کا کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ دس گیارہ ماہ سے آنیوالی حکومت نے ملکی حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے اور اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کر سکتا ہے کہ ملک کے تمام تر نامساعد حالات کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں اور قیادتیں ہیں۔ جمہوری اقدار، جمہوری نظریات اور حقیقی جمہوریت کے تصورات سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انسانی حقوق، شخصی آزادیاں، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کا حق کے احترام کےلئے تمام عمر مصروف جدوجہد رہا ہوں۔

اپنے پاکیزہ نظریات پر سودے بازی کے بجائے موت کو گلے لگانا بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔ لیکن شاہ کے خلاف کالے چور کی حمایت۔ یہ بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں ،ترقی پسند این جی اوز ٹاءپ سیاسی گروپوں ،وکلا ء، صحافیوں اور تجارتی تنظیموں کے نمائندوں کے دستخطوں سے جمہوری اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ جس میں حقیقی جمہوریت (جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادی شامل ہوں ) شہری،عوامی ،تمام انسانی ،معاشی و سماجی حقوق کے احترام اور تحفظ کے لئے اور آمرانہ قوتوں کی پسپائی کےلئے جمہوری قوتوں کو کھڑے ہونے کی دعوت دی گئی ہے ۔ جاری کردہ جمہوری اعلامیہ میں سیاسی قوتوں کے خلاف انتقامی احتساب سمیت میڈیا پر سنسر شپ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اعلامیہ کے اظہار تشویش کے نکات اور جمہوری قوتوں کے لئے دعوت جہد کے نکات میں جو اہم ترین نکتہ ہے۔

وہ یہ ہے کہ حالات جیسے چل رہے تھے ۔ ویسے ہی چلنے دئیے جائیں ۔ پارلیمان میں جو مافیا کے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کالے دھن سے پارلیمنٹرین کا بہروپ دھار لیا ہے اب ان کے چہرے پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پربے نقاب نہ کیے جائیں بلکہ سب کی پردہ داری قائم رہنے دی جائے ۔ جعلی ڈگری فروحت کرکے کا دھن کمانے والوں اور پراپرٹی کے گورکھ دھندوں کی کمائی کو تحفظ دینے کے لئے بنائے گئے میڈیا ہاوسز کومیڈیا کی آزادی کے نام پر مزیدہیرا پھیری کی کھلی چھٹی دے دی جائے ۔ جس بلاتفریق احتساب کا ڈھول پیٹا جاتا ہے ۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ احتساب ضرور کیا جائے مگر ان کا احتساب نہ کیا جائے۔

کسی اور کا احتساب کیا جائے گا۔ حکمران رہے ہو۔ ملک کی ترقی کا حلف اٹھایا تھا ۔ قوم سے وعدے کیے تھے کہ مسائل حل کریں گے ۔ حلف اٹھا کر وعدے کرکے کچھ نہیں کیا الٹا اپنی تجوریاں بھری ہیں ۔ محل بنائے ہیں ۔ بیرون ممالک جائیدادیں خریدی ہیں ۔ پھر احتساب بلاتفریق کیوں ہو ۔ سب سے پہلے احتساب سیاستدانوں کا کیا جانا قرین انصاف ہے جو راہنما بن کر آتے ہیں اور راہزن ثابت ہوتے ہیں ۔ جمہوری اعلامیہ کے دستخط کنندگان میں کئی نیب زدہ ہیں اور کئی میڈیا کی سیاست کے بدنام نام ہیں جنہوں نے ساری عمر کوئی جاب کئے بغیر دولت کے انبار اکٹھے کیے ہیں۔ میڈیا کے نام پر پراپرٹی ڈیلری کی ہے۔ کئی فراڈ بے نقاب ہوچکے ہیں ۔ کیا ایسے لوگ جمہوری اعلامیہ پر دستخط کریں گے اور عوام مان لیں گے۔

کئی ترقی پسندی کی سیاست کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں۔ کئی این جی اوز کے ذریعے غیرملکی فنڈنگ پر موج و مستی میں مصروف ہیں ۔ شاہ کو بھگانے کے لئے کسی بھی کالے چور کی حمایت والا فارمولا اب کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہ حربے بوسیدہ ہوچکے ہیں ۔ اجارہ داروں، مک مکا کرنے والوں کے اپنے تضادات کسی گٹر کی طرح ابل ابل کر گندگی پھیلا رہے ہیں ۔ چور اور کالے چور عوام کے سامنے ننگے ہو چکے ہیں۔ جو کبھی پارلیمان کی آڑ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی میڈیا کی آزادی کے پچھے چھپتے ہیں۔

ملکی وسائل پر قابض لوٹ مار کرنے والے مافیا کے باعث آج پاکستان کے غریب عوام اور محنت کش بنیادی انسانی ضروریات کو ترس رہے ہیں اور جمہوری اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں بھی وہی لوگ شامل ہوں گے تو پھر اعلامیہ کو عوام کس طرح قبول کر سکتے ہیں ۔ جمہوریہ اعلامیہ کی عدم پذیرائی سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ اعلامیہ لکھنے والوں نے دستخطوں کی تعداد پر توجہ دی ہے معیار کا خیال نہیں رکھا ہے ۔ اہل فکر اور صاحب شعور بخوبی سمجھتے ہیں کہ جمہوری اعلامیہ عدم توجہی کا شکار کیوں ہوا ہے۔ اگر ایسا ہی اعلامیہ پذیرائی کے قابل ہوتا تو پھر طاہر القادری کے اعلانات میں کیا خرابی تھی۔ پھرعوام کا اجتماعی شعور طاہر القادری کے ساتھ کھڑا کیوں نہیں ہوا۔ عوام جانتے ہیں۔ کیا کھرا ہے اور کیا کھوٹا ہے ۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔