وطن عزیز میں ہزاروں نہیں شائد لاکھوں بچے ہر سال جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بدنصیبوں کو زیادتی کے بعد موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
لیکن ایک بڑی تعداد ان بچوں کی بھی ہے جنہیں جنسی زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر یا سنسان جگہوں پر نہیں پھینکا گیا ۔ ایسے کم بدقسمت بچوں کی اکثریت کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ بہت سے بچے قتل نہیں ہوتے بلکہ اپنی زخمی روح کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ اندر باہر سے ٹوٹے ان معصوموں کے ساتھ ہونے والی سفاکی کی بھنک اگر کسی عادی بچہ باز کے کان میں پڑ جائے تو وہ اسے بلیک میل کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور بہت سے کیسز میں بچہ اتنا غیر محفوظ اور بے اماں ہوتا ہے کہ وہ زیادتی کی درندگی کو بار بار برداشت کرتا ہے اور اس کرب سے آئے دن گزرتا ہے۔ کچھ ایسا، ہی ہمارے ہاں جمہوریت سے کیا جا رہا ہے۔
آمریت کی سول اور عسکری اشکال کے خلاف اٹھنے والی حالیہ آوازوں میں سے ایک مضبوط اور صاف آواز مسلم لیگ ن بشمول اور مریم نواز بالخصوص ہیں اگرچہ بہت سے دوست اسے سیاسی دھوکہ، پاور پالیٹکس میں ذاتی مفاد و عناد کی جنگ اور سیاسی یتیمی جیسے القابات سے نوازتے ہیں ۔ لیکن یہ آوازیں ہیں کہ اٹھتی ہی چلی جاتی ہیں اور انکی گونج ہر آنے والے دن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
جمہوریت کی بقا اور بحالی سے متعلق مریم نواز کے ہر بیان اور مسلم لیگ ن کے ہر "جمہوریت پسند" بیانیہ کے سامنے نواز شریف کے ماضی کو آئینہ بنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور میڈیا یہاں سیاسی حریف بن جاتا ہے۔ ن لیگ کے ساتھ عداوت جمہوریت کے اس بچے کا منہ دبوچ کر اس سے مزید زیادتی دینے والوں کو شہ دیتی ہے۔
بات ہوتی ہے موجود ہائیبرڈ نظام اور فوج کے سیاسی کردار کی تو جھٹ "ضیا الحق کے سیاسی جانشین" کا نشتر نکال لیا جاتا ہے، آواز آتی ہے وزیراعظم کی برخوداری اور وزیراعظم کے عہدے کی بار بار ہونے والی سبکی کی تو، جرنل جیلانی کی طرف سے فلیٹیز ہوٹل میں نواز شریف کے سر پر رکھی جانے والی بیرے کی پگڑی کی مثال مرچ مصالحہ لگا کر دی جاتی ہے۔
مریم نواز نے بیان دیا کہ عمران خان کا مینار پاکستان والا تاریخی جلسہ آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے کروایا تھا تو بیان آیا کہ آئی جے آئی تو خالصتا سیاسی اتحاد تھا۔ ایسے برملا حملوں پر ن لیگ کے کارکن جنہیں دوسری جماعتوں والے طنزاً جبکہ وہ خود کو فخریہ پٹواری کہتے ہیں، بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ ن لیگ اور نوازشریف کا ماضی ربڑ کی گیند کی طرح ٹپہ کھا کر ان جمہور پسندوں کے منہ سے ٹکراتا ہے یاد ماضی کا عذاب انہیں شرمسار کر دیتا ہے کچھ ڈھٹائی سے ان حقیقتوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لاجواب ہو جاتے ہیں۔ اس امر میں شبہ نہیں کہ اس "مکافات عمل" کو غیبی طاقتوں کی پشت پناہی ہے یا نہیں لیکن "خلائی مخلوق " کا آشیرباد تو ضرور حاصل ہے۔
اگرچہ ن لیگ سب کچھ کھونے کے بعد ناؤ اور نیور کے مقام پر پہنچ چکی ہے۔اسکا ماضی گرد آلود بگولوں کی طرح اسکا طواف کرتا رہتا ہے۔ تاہم اسکے رہنماؤں اور کارکنوں میں سے کچھ ذاتی مفاد اور کچھ عادی خوشامد کی بنیاد پر اپنے تئیں اس تصور کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب برسوں کی روزانہ کی بنیاد پر جاری ن لیگ اور اسکے مخالفین کی لڑائی میں ن لیگ کو کوئی چھوٹی موٹی فتح نصیب ہوتی ہے یا اسکے کسی بیانیہ کا سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے تو پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کی انسیکیورٹی بھی جاگ جاتی ہے ۔ جیالے اپنے دل کے چھالے پھپھولنے لگتے ہیں۔ وہ ماضی بعید پر مٹی ڈال بھی دیں تو ماضی قریب کو کیسے بھولیں، آخر کیسے بھول جائیں کہ میمو گیٹ سکینڈل میں نواز شریف خود کالی ٹائی اور کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ میں جا پہنچے تھے۔
کیسے بھلا دیں کہ 2014 کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے بندوق والوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر کس کس طرح پیپلزپارٹی کی رسوائیوں کا سامان پیدا کیا تھا۔ اے این پی کے سرخ ٹوپیوں والے بھی ن لیگ کے قوم پرست نعروں پر مچل مچل جاتے ہیں اگرچہ قوم پرستی کا نظریہ اے این پی کی سیاست کو کسی بام عروج تک نہ پہنچا سکا مگر انکی قربانیوں کی فہرست تو طویل ہے۔ اب "پنجابی" جماعت جس نے برسوں تک دیگر قومیتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی کیونکر اس شدھ اور مقدس نظریئے کو استعمال کر کے گڑھے میں پھنسی اپنی سیاسی گاڑی کو دھکا لگا سکتی ہے۔ مولانا کے پاس شائد ن لیگ کی طرح کھونے کو کچھ نہیں اور نہ ہی وہ کسی طور مستقبل قریب میں ن لیگ کے سیاسی حریف بنتے دکھائی دیتے ہیں اس لئے وہ ن لیگ کی "جمہور پسندی" پر چپ سادھ لیتے ہیں.
یار لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ن لیگ جمہوریت کی آڑ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ عین ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن میدان جنگ میں تو کئی مرتبہ ڈھال بھی کام نہیں آتی اور مریم نواز کی جان کو خطرات والے تبصروں سے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ ن لیگ اب لڑائی کو جس مقام پر لے گئی ہے وہ چھوڑنا بھی چاہے تو شاید اب لڑائی کا یہ کمبل اسے نہیں چھوڑے گا اور مزاحمت کے اس رستے پر چلتے خدانخواستہ کوئی جانی نقصان ہوا تو اس جماعت کو ابتک ن کے لاحقہ والی مسلم لیگ لکھنے والے بزرگ صحافی سمیت بہت سے دانشور "جمہور پسندی" کا، سرٹیفکیٹ جاری کر ہی دیں کیونکہ اس سے کم پر تو، ہم یقین کرنے والے بھی نہیں۔ لیکن میرا مقدمہ ن لیگ نہیں بلکہ جمہوریت سے زیادتی کا ہے۔
کیونکہ سیاست کے "بچہ باز" جمہوریت کے ساتھ بد فعلی کی بساط میں ن لیگ سے زیادہ "جمہوریت" کو تختہ مشق بنا رہے ہیں۔ جمہوری رویوں اور نظام کی لاچاری اور بربادی کو ن لیگ کا جامہ اوڑھا کر اس نظام کی مزید، ہر روز، عصمت دری کی جا رہی ہے۔ جمہوریت کے جسم پر ن لیگ کے چیتھڑے ہوں یا پیپلزپارٹی نے اسکا ستر ڈھانپ رکھا ہو، فضل الرحمان اسے مذہبی امان فراہم کرنا چاہتے ہوں یا اے این پی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اسے قومیت کی چادر میں چھپانے کی سعی کریں۔ جمہوریت کے اس بچے کو "بچہ بازوں" سے بچانا ہو گا۔
ان "جمہوریت کے بچہ بازوں" کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ماشاءاللہ وہ نئے نویلے خود ساختہ جمہوریت پسند بھی شامل ہیں جو اخلاقی دباؤ میں آکر جمہوریت سے زیادتی کے مقدمہ میں نوازشریف کو ذمہ دار قرار دے کر خود کو غیر جانبدار سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔