ذہنی پستی اور نرگسیت پسندی کا شکار معاشرہ

ذہنی پستی اور نرگسیت پسندی کا شکار معاشرہ
بالآخر موجودہ حکومت نے شدت پسند ملاؤں اور ان کے پیروکاروں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری بورڈ سے ہٹا دیا۔ عاطف میاں کے خلاف ملک بھر میں محض ان کے احمدی عقیدے کے باعث مہم چلائی گئی اور مولویوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دیا۔ مسلم لیگ نواز جو محض چند ماہ قبل ہی خود عمران خان اور ان کی جماعت کے ہاتھوں مذہبی کارڈ کا شکار ہوئی تھی نے بھی اس مکروہ کھیل میں اپنا حصہ ڈالا اور اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ وطن عزیز میں محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے سیاسی جماعتیں کسی بھی فرقے کی بلی دیتے ہوئے ہرگز ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتیں۔

ہماری اصل بدقسمتی

وقت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وقت کبھی ساکن نہیں ہوتا کبھی جامد نہیں ہوتا۔ صدیوں کا سفر کب اور کیسے ڈھلتا ہے اس کی خبر تک نہیِں ہوتی۔ دنیا اپنے وجود سے لے کر لمحہ موجود تک تبدیلی کا سفر طے کرتی آئی ہے اور آئندہ آنے والی صدیوں میں بھی تبدیل ہوتی رہے گی۔ دنیا میں تبدیلیوں کا سفر انسانی شعور، عقائد، نظریات میں بھی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کا انسان گزرے وقتوں میں بستے انسان سے ہزار درجے بہتر شعور اور ادراک رکھتا ہے۔ جوں جوں انسان نے شعور کی ترقی کی منازل طے کیں، انسان کے ذہن پر بندھی عقائد روایات اور جہالت کی پٹیاں کھلتی چلی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں غلام، لونڈیاں رکھنے یا ایک دوسرے کو عقیدوں کی بنا پر مارنے یا کمتر سمجنے والی سوچ کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج میں بسنے والی اکثریت آج بھی ان عقائد نظریات اور روایات کی چھتری تلے پناہ لیتی ہے۔

ہمارے مشغلے

ہمارے یہاں صدیوں پرانے فرسودہ نظریات و عقائد رائج بھی ہیں اور انہیں ماننے والوں کی بہتات بھی۔ عورت کے حقوق کی پامالی سے لے کر خواجہ سراؤں کے حقوق کی پامالی اور عریانی و فحاشی کے خلاف خود ساختہ جنگ سے لے کر اقلیتوں کا جینا حرام کرنا ہمارے ہاں آج بھی سب سے زیادہ قابل مباحث موضوعات سمجھے جاتے ہیں۔ غیر مسلموں کو نیست و نابود کرنے کے طریقے ڈھونڈنے سے لے کر جن بھوتوں کے وجود یا کالے جادو کا توڑ اور احمدی برادری کی سازشوں کو ڈھونڈنے کا خبط ہماری تحقیق کا مرکز ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے اشخاص سے لے کر جاہل افراد سب آپ کو انتہائی ایمانداری سے احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کو شودر سمجھنے، جنات کے وجود کالے جادو کے توڑ اور امریکہ و اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے کے گر بتاتے پائیں جاتے ہیں۔ یا پھر عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کمتر دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یعنی ہر غیر تخلیقی اور غیر کارآمد بحث و تحقیق پر وقت اور توانائیوں کو برباد کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی۔

ہمارے مباحث کا معیار

ہمارے ہاں مباحث کا معیار یہ ہے کہ احمدی ماہر معیثت اہم عہدے پر فائز ہو سکتا ہے کہ نہیں، غیر مسلموں کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے کہ نہیں خواجہ سراؤں کو ووٹ دینا جائز ہے کہ نہیں۔ شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر ہونی چاہیے، نماز ہاتھ کھول کر پڑھنی ہے یا بند کر کے۔ عورت کا جینز پہننا یا ہاف سلیو پہننا جائز ہے یا نہیں۔ امریکہ کا ساتھ دینے والا مسلمان ہے یا نہیں۔ اور اگر ان مباحث اور تحقیقات سے فرصت مل جائے تو باقی کا وقت جنات اور آسیب کے سائے ڈھونڈنے یا کسی پیر کے آستانے پر روحانی طاقتوں کے حصول میں ضائع کیا جاتا ہے۔ یعنی اجتماعی کاہلی اور ناکامی کو جنوں بھوتوں اقلیتوں اور کفار کے ذمہ ڈال کر شکست کے نادیدہ احساس سے راہ فرار حاصل کی جاتی ہے۔

لفاظی کے چیمپئن، اور سری دنیا کے مزے لوٹنے کے بعد عریانی پر درس

ویسے تو لفاظی کے لئے انسانی حقوق کے چیمپیئن اور دنیا کے سب سے پرامن مذہب کے ٹھیکیدار اور دعویدار لیکن درحقیقت اپنے اپنے فرقوں میں بٹے ہوئے ایسے حیوان جو مذہب اور خدا کے نام کو اپنی اپنی جھوٹی اناؤں کی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں یا لمبے چوڑے منافع اور مفاد کے لئے۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے افراد جنہیں امریکہ یا یورپ میں بس کر زندگی سنوارنے اور شعور کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے ان میں سے بھی زیادہ تر افراد امریکہ و یورپ کی ہی بخشی گئی آسائشوں اور شخصی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انہی معاشروں پر کبھی عریانی و فحاشی اور کبھی عقائد و نظریات کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

معاشرے میں مذہب، قومیت اور روایات کا چورن خوب بکتا ہے

دراصل معاشروں کی ترقی کا دارومدار ان بنیادی قدروں سے ہوتا ہے جن کو تسلیم کر کے انسان کہلوانے کے قابل ہوا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ہندو، احمدی گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ احمدی، عیسائی کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ عیسائی اور سنی یا شیعہ گھرانوں میں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچے عمومی طور پر اپنے اپنے عقیدوں پر ہی زندگی بسر کریں گے۔ اسی طرح مختلف ممالک کی شہریت کے حامل یا وہاں کے پیدائشی لوگ اپنے وطن سے فطری لگاؤ رکھیں گے۔ وہ معاشرے جو زندگی کی کھوج اور جستجو میں ہم سے صدیوں آگے نکل چکے ہیں ان کے لئے یقیناً عقائد کی بنیاد پر کسی سے نفرت کرنا، جنس، سیکس یا جنات کی باتیں غیر ضروری اور غیر اہم ہوں گی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ مذہب، قومیت اور روایات کا چورن خوب بکتا ہے، اس لئے آج بھی یہاں زمانہ قدیم کے اصول اور سوچ پائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام ہمارا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ احمدی ہے اور ہماری نگاہوں میں کافر

اپنی اپنی حیثیت اور نصاب کے مطابق اقلیتوں کو دبایا جاتا ہے یا کمزوروں پر اپنی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ کافر کافر کے نعرے فتوے یا مرتد و غداری کے سرٹیفیکیٹ بنانے میں ہم لوگ ماہر ہیں۔ کوئی بھی ہمارے فرسودہ خیالات کو چیلنج کرے وہ یا تو کافر ہوتا ہے یا مرتد یا پھر غدار۔ ڈاکٹر عبدالسلام ہمارا ہیرو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ احمدی ہے اور ہماری نگاہوں میں کافر، البتہ ہالینڈ کی لیبارٹری سے ایٹمی فارمولہ چرانے والا ملک کے ایٹمی رازوں کو دوسرے ممالک کو بیچنے والا ہمارا ہیرو کہلواتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو پوری دنیا میں نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ نوبل پرائز کے علاوہ انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ یہی صورتحال ملالہ یوسفزئی کی ہے جو ہمارے لئے غدار اور جھوٹی ہے۔

ہم نے تو ایدھی تک کو نہیں چھوڑا

عاطف میاں کی معیثت کے شعبے میں مہارت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس کو نفرت کی نظر سے اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایک مختلف مذہبی سوچ رکھتا ہے۔ ۔ہم نے تو عبدالستار ایدھی صاحب تک کو نہیں چھوڑا اور انہیں اپنے اپنے عقیدے اور نظریات کی عینک سے پرکھتے ہوئے زندیق کافر اور نجانے کیا کیا قرار دے ڈالا۔ یہی حال بانی پاکستان جناح کا ہے جنہیں کافر اعظم قرار دیا گیا اور انہیں کافر قرار دینے والے ہی اب ان کی کہی گئی باتوں کو تروڑ مروڑ کے انہیں ایک پکا مسلمان بنانے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔ منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ فحش نگار البتہ آمروں کے تلوے چاٹتے اور دوران ملازمت اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے قدرت الله شہاب اور اوریا مقبول جان جیسے مصنوعی لوگ بابے اور روحانیت کے نام نہاد ٹھیکیدار۔

عامل نجومی باوا نہ صرف معتبر ٹھہرتے ہیں بلکہ مالی آسودگی بھی حاصل کرتے ہیں

لہٰذا معاشرے میں مولوی پیر عامل نجومی باوا نہ صرف معتبر ٹھہرتے ہیں بلکہ مالی آسودگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ دوسری جانب استاد، سائنسدان یا تحقیقی و تخلیقی شعبہ جات سے وابستہ زیادہ تر افراد بمشکل اپنی زندگی کا پہیہ چلا پاتے ہیں۔ دنیا میں پہیہے کی ایجاد سے لے کر کمپیوٹر کی ایجاد ہو یا پیناڈال سے لے کر ایڈز و کینسر جیسے مہلک بیماریوں کی ریسرچ یا پھر چاند سے لے کرمریخ تک انسان کی رسائی، آپ کوپرنیکس اور گلیلیو سے لے کر آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگ یا کسی بھی تخلیقی محاذ پر موجود نام کو دیکھ لیجئے، ان ناموں میں نہ تو کوئی مولوی نظر آئے گا نہ کوئی پیر نہ کوئی عامل اور نہ کوئی روحانی پیشوا۔ نہ ہی یہ نام آپ کو صدیوں پرانے عقائد و نظریات کے قیدی نظر آئیں گے۔ جس دن عقائد کی آڑ میں مذہب کے بیوپاریوں کی آماجگاہیں ویران ہوئیں، جنات، کالے جادو، روحانیت کی تلاش کی بجائے ہماری تجربہ گاہیں اور تحقیق گاہیں آباد ہوں گی اس دن ہم مہذب دنیا کی جانب بڑھنے کے سفر کا آغاز کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ جب عقائد و نظریات کی بجائے ہم انسانوں کو ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر جانچنے اور تکریم دینے پر آمادہ ہو جائیں گے اس دن ہم بھی اپنے اپنے سٹیفن ہاکنگ اور آئن سٹائن کو جنم دینے کے قابل ہو جائیں گے۔

احمدی برادری کو بطور سیاسی چارہ استعمال کرنے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ۔۔۔

وقت کا سفر تو جاری و ساری ہے لیکن جو معاشرے عقیدتوں، عقیدوں اور رسومات کی قید میں جامد ہو جائیں تو وقت ان کا انتظار نہیں کرتا اور جمود کا شکار معاشرے تعفن کے جوہڑوں میں ڈوب کر حشرات الارض کی مانند رینگتے رہ جایا کرتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی کارڈ کھیل کر احمدی برادری کو بطور سیاسی چارہ استعمال کرنے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ گھر میں لگی آگ کی لپیٹ میں سب آ جایا کرتے ہیں۔ سیاست اور مذہب کا بیوپار کرتے کرتے ان تمام سیاسی ٹھگوں اور عقائد کے سوداگروں نے ملک کو خادم رضوی اور اس جیسے کروڑوں شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ہم دائروں میں گھومتے رہیں گے اور اپنے سماج کو ہی سانپ کی مانند خود ہی دم سے کھاتے کھاتے ایک دن اس کو منہ سمیت مکمل ہڑپ کر جائیں گے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔