مشال خان سے عاطف میاں تک

مشال خان سے عاطف میاں تک
مشال خان کے قتل کے بعد اگر کسی نے پاکستان میں عدم برداشت اور جہالت کی تازہ ترین اور بدترین مثال دیکھنی ہو تو وہ عاطف میاں کی تقرری پرہونے والا ڈرامہ دیکھ لے۔ مشال خان کے واقعے سے لے کر عاطف میاں تک ہم اپنی مذہب کے ساتھ وابستگی میں پنہاں جمود، جہالت اور جذباتیت دیکھ سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر عقیدت کے فرسودہ معیار بھی، جن میں اپنی مجموعی بہتری اور شعوری کوششوں کے برخلاف عقیدت دوسرے سے نفرت کا نشان بن گئی ہے۔

'درود و سلام' والے اشتہاری اسحاق ڈار اور حج کے مقدس ترین فریضے میں حاجیوں کو چونا لگانے والے تو قبول ہیں لیکن۔۔۔

آج قائد کی روح خوب تڑپ رہی ہوگی۔ ان کے بنائے پاکستان میں آج ریاست کا اس کی عوام کے مذہب سے تعلق اتنا گہرا ہو گیا ہے کہ اس کو المعروف 'درود و سلام' والے اشتہاری اسحاق ڈار اور حج کے مقدس ترین فریضے میں حاجیوں کو چونا لگانے والے تو قبول ہیں لیکن ایک ملک کی تباہ حال معیشت میں ایک قابل ترین اور ایماندار ماہر معاشیات کے چند مشورے نہیں۔ صرف اس لئے کیونکہ اس کا عقیدہ اس ملک کی اکثریت سے مختلف ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کو دنیا کے پچس بہترین نوجوان ماہر اقتصادیات میں گردانا جاتا ہے۔ لیکن آج نئے پاکستان میں بھی مذہبی اور معاشی معاملات کو الگ نہیں کیا جا سکا۔ آج نئے پاکستان مے بھی کسی اقلیتی پاکستانی کو پاکستان کی خدمات کے لئے کسی 'سی وی' یا قابلیت کی نہیں بلکہ چند جنونیوں کی آشیرواد اور ایک عدد ایمانی سرٹیفیکیٹ چاہیے۔

عمران خان اور جناح؟

کاش عمران خان میں آج محمّد علی جناح جیسی جرات ہوتی، جب قائد نے بغیر کسی ڈر اور ہچکچاہٹ کے ایک احمدی سفارتکار سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ بنایا اور ظفر اللہ خان پہلے اشیائی شخص بنے جن کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کا صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہمارے مولوی حضرات نے قائد کو بھی خوب دھمکایا تھا۔ لیکن شائد جناح جناح تھے، عمران خان نہیں۔ نجانے کب تک ہم ریاست کو چلانے کے لئے قابلیت پر مذہبی عقیدے کو ترجیح دیتے رہیں گے۔ اور کب تک ہم بحیثیت قوم اس بیہودہ جمود کا شکار رہیں گے۔



پرچم کے سبز حصے والے بھی کئی آج آبدیدہ اور طیش میں ہیں

اکنامسٹ اور پروفیسرعاطف میاں جیسے قابل اور باعزت شخص پر صرف اس کے عقیدے کی بنیاد پر جو کیچڑ اچھالی گئی، اس کے ذمہ دار بھی ہم سب ہیں اور اس غلطی کے معاشرتی اثرات اور نتائج بھی مہلک اور سنگین ہو سکتے ہیں۔ آج جہاں حکومت نے اپنی حکومتی طاقت کو درپیش جنونی مذہبی حلقوں کا خطرہ کچھ عرصے کے لئے روک لیا ہے تو وہیں ان کو اقلیتوں کو مذہبی منافرت کا نشانہ بنانے پران کو 'گو اہیڈ' بھی دے دیا ہے۔ اقلیتیں آج 'قائد کے پاکستان' اور 'مدینہ کی ریاست' میں اپنے وجود کو غیر محفوظ سمجھیں گی اور اس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آئین میں درج یکساں مواقع کا وعدہ ان کو اس نئے پاکستان میں بھی شائد پورا ہوتے ہوا دکھائی نہ دے۔ حکومت کے اس فیصلے کی علامتی حیثیت بہت زیادہ ہے۔

آج پاکستانی پرچم کا سفید حصہ یقیناً آبدیدہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی بڑی ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ سبز حصے والے بھی کئی آج آبدیدہ اور طیش میں ہیں اور اس فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہر کرتے ہیں۔