آٹھ مارچ کو ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اور کل پاکستان میں خواتین کے مختلف گروہ یکجا ہو کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے مارچ کریں گے۔ یہ کوئی آسان موضوع نہیں ہے۔ اس موضوع پہ تجزیہ دینا ایسے ہے جیسے ہاتھ سے مچھلی پکڑنے کی کوشش کی جائے۔
اگر آپ بغیر پس منظر کے ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کی تشريح کریں تو یقیناً پہلا تائژ آپ کو یہی ملتا ہے کہ عورت غیر مشروط قسم کی آزادی مانگ رہی اور وہ مغربی عورت بننا چاہتی ہے یا یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ عورت بے حیائی کی طرف راغب ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس میں کچھ قصور اس نعرے کو جنم دینے والوں کا بھی ہے کہ خوامخواہ میں انہوں نے نقاد کو ایک موقع دے دیا ہے کہ بحث اب عورت کے مسائل سے ہٹ کر اس پہ چلی گئی ہے کہ اصل میں میرا جسم میری مرضی ہے کیا۔
رب تعالیٰ نے انسان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی مرد اور عورت۔ یہی وجہ ہے کہ مرد عورت کی طرف اور عورت مرد کی جانب قدرتی طور پر راغب ہوتی ہے۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ مرد اپنی مردانہ طاقت کی وجہ سے اپنے آپ کو عورت سے برتر سمجھنے لگ گیا۔ عورت برداشت کرتی گئی اور کر رہی ہے۔ ایک زمانے سے اب عورت اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ جنگ صرف ہمارے خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطے میں صدیوں سے لڑی جا رہی ہے۔
اس جنگ کے وسیع ہونے کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ قریباً پچھلے 50 سالوں میں ایک نئے مضمون نے جنم لیا ہے جس کو gender studies کہتے ہیں۔ یہ مضمون سی ایس ایس کے امتحانوں میں بھی کچھ سالوں سے موجود ہے۔ اگر خلیل الرحمان قمر یا ان جیسے دیگر رفقاء نے اس مضمون کا ایک باب بھی پڑھا ہوتا تو وہ عورت مارچ کی اتنی والہانہ طریقے سے مخالفت نہ کرتے۔
ہم جب بھی کسی کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو پہلی بات یہ دیکھنی چاہیے کہ ہم حقوق کی بات کر ہی کیوں رہے ہیں۔ آخر کیا ضرورت پڑی ہے خواتین کو مارچ کرنے کی؟ اگر آپ نے ان دنوں ٹی وی دیکھا ہو تو آپ کو ایسے لگے گا کہ جیسے اچانک سے کسی نے خواتین کے حقوق سلب کر لیے ہیں اور اب وہ مزاحمت کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پہ آ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ صدیوں پرانا ہے۔
جب بھی حقوق نسواں کی بات کی جاتی ہے تو معاشرے میں مختلف طبقات میں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین کے مابین بھی اپنے حقوق کو لے کر اختلافات اور مختلف خواہشات ہیں۔ مثال کے طور پر وہ عورت جو نوکری نہیں کرتی اس کو اس عورت کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے جو نوکری کرتی ہو اور جس کو محض اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے کم تنخواہ ملتی ہے۔ ایسی خواتین جو نوکری نہیں کرتیں ان کے کچھ اور نوعیت کے مسائل ہوتے ہیں جیسا کہ خاوند کا حاکمانہ رویّہ یا خاوند کا بیگم کی ضروریات پوری نہ کرنا۔ لیکن عورتیں ایک مقام پہ اکٹھی ہیں کہ اس کے ساتھ مرد جہاں موقع ملے زیادتی کرتا ہے۔
عورتیں اور مرد دونوں ایسی عورتوں کو عمومی طور پر پسند نہیں کرتے جو دبنگ اور نڈر ہوں۔ ایسی عورتوں کو وہ طنزاً کہتے ہیں کہ تم تو عورت ہو ہی نہیں تم تو مرد ہو۔ یعنی عورت سے کچھ توقعات وابستہ ہیں۔ لیکن کیا یہ توقعات محض عورت سے وابستہ ہیں؟ نہیں۔ کچھ خصوصيات کو عورت کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور کچھ کو مرد کے ساتھ۔
اب ذرا ایسے مرد کی مثال لے لیں جو دبنگ نہ ہو، شرمیلا اور ڈرپوک ہو۔ ایسے شخص کو اس کے والدین، دوست احباب وغیرہ مرد تک ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’مرد بنو مرد، لڑکیوں کی طرح رونا بند کرو‘۔
اگر کسی کے بیٹے نافرمان نکل آئیں اور بڑھاپے کا سہارا بیٹی بن جائے تب بھی اس کو عورت نہیں مانا جاتا بلکہ الٹا والدین ایسی بیٹیوں کے بارے میں فخر سے کہتے ہیں کہ یہ تو میری بیٹی نہیں میرا بیٹا ہے۔ یعنی فرمانبرداری اور سہارا دینا بھی مرد کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ وہ مرد جو اپنی بیوی کے طابع ہو اس کو ہمارا معاشرہ جورو کا غلام یا بے غیرت کہہ کے پکارتا ہے۔
میں نے اب تک اس تحریر میں تمام وہ باتیں کی ہیں جو آپ روزمرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ کیا اس گتھی کو سلجھانا اتنا آسان ہے؟ ہرگز نہیں!
میرا جسم میری مرضی کا ہرگز مطلب خواتین کو بے حیائی کی طرف راغب کرنا نہیں بلکہ یہ پیغام دینا ہے کہ میرے جسم پہ میرا حق ہے۔ مرد کو پیغام ہے کہ جسم میرا ہے تو مرضی تیری کیوں۔ مرد سے سوال ہے کہ وہ کسی اور کی بیٹی یا بہن کے ساتھ جب افیئر چلائے تو اس کی غیرت نہیں جاگتی۔ مگر جب اسی شخص کی بہن بیٹی کے ساتھ کچھ ہو جائے تو وہ غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھتا ہے۔
نتیجتاً اب یہ موضوع ایک نظریاتی میدان جنگ کی سی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا ایک منظر ٹی وی پہ اس دن دیکھنے میں آیا جب خلیل الرحمان قمر نے براہ راست ماروی سرمد کے بارے میں انتہائی نازیبہ الفاظ کہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماروی سرمد عمومی طور پر ضرورت سے زیادہ تیز لہجے میں بات کرتی ہیں، جلد غصے میں آ جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں یہاں تک بھی سمجھتا ہوں کہ خلیل الرحمان قمر کا ارادہ ایسے الفاظ کہنے کا نہیں ہو گا اور یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ یکدم اپنے اعصاب پر قابو کھو بیٹھے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلیل الرحمان قمر کے حق میں اور ایک بھرپور تعداد ان کے خلاف ابھر کے آ گئی ہے۔
خلیل الرحمان کے حق میں بولنے والے حیا، عزت اور ہمارے معاشرتی اقدار کی حفاظت کے علمبردار بن گئے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے خلیل الرحمان کے کہے گئے الفاظ کی مذمت کی ہے ان کو بے حیائی، بے راہروی کا شکار اور مغرب زدہ بتایا جا رہا ہے۔ یعنی اب یہ میدان جنگ گرم ہو گیا ہے۔
یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے؟ خالصتاً یہی کہ ایک خاص حد سے زیادہ کے روپ میں عورت ہمارے معاشرے کو قابل قبول نہیں۔ جہاں اس ملک میں لاکھوں لوگ عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کے مداح ہیں وہیں ان سے کہیں زیادہ تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان سے شدید نفرت کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں تو ویسے بھی زبردستی ٹیگ لگائے جاتے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی کسی ایک پالیسی پہ تنقید کی جائے تو ایک تیار جتھہ مختلف محازوں سے زبردستی ٹیگ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بندہ فوج کے خلاف ہے۔ اب اسی طرح ہر وہ شخص جو عورت کے حق کی بات کرے اس پہ ایک اور جتھہ زبردستی ٹیگ لگا رہا ہے کہ عورت کے حقوق کی حمایت کرنے والے بے حیائی کے حامی ہیں۔ جو مرد اور عورت اتوار کے دن ہونے والے مارچ کے حق میں ہیں یا اس کے خلاف نہیں ہیں، ان سب کے اوپر الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں فحاشی چاہتے ہیں۔ یہ ٹیگ اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہے اور اس سے پہلے کہ لوگوں میں آگاہی آ جائے اس بحث کو یہیں دفن کر دیا جائے۔
یہ تاثر بھی بڑا غلط ہے کہ مغرب میں ہر ایک عورت بے حیا ہوتی ہے۔ میں اکثر اپنے تجزیوں میں برطانیہ میں گزارے ہوئے وقت کا ذکر کرتا ہوں۔ وہاں جانے سے پہلے میں بھی یہی سوچتا تھا۔ اور یہ کہا بھی جا رہا ہے کہ میرا جسم میری مرضی مغرب کی ایک سازش ہے اور وہ ہمارے معاشرے کو گندا کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مغربی معاشرے میں اب بھی معاشرتی اقدار قائم ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہاں اگر کوئی لڑکی گھر بار چھوڑ کے غلط راستے پر نکل جائے تو اس کے گھر والے اس کو غیرت کے نام پہ قتل نہیں کرتے۔ کئی لوگ جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ان کی خاندانی روایات انتہائی مشرق زدہ ہیں۔ تو یہ کہنا کہ مغرب کی عورت ہے ہی بے حیا جاہل پن سے کم نہیں ہے۔
مغرب کی عورت نے بھی بہت لمبا سفر طے کیا ہے اور اب تک کر رہی ہے۔ پہلے مغرب کی عورت کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی، عزت یافتہ پیشے میں نوکری کی اجازت نہیں تھی۔ اب بھی کئی خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کسی روز تفصیل سے مغرب کی خواتین پہ لکھوں گا جس کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہم بے حیا کہتے ہیں۔
میں نے مختلف زاویوں سے اس موضوع کو اس لیے دکھانے کی کوشش کی کہ پڑھنے والوں میں یہ آگاہی ہو کہ خواتین کے حقوق کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے۔ مغرب کی عورت بے حیا نہیں ہیں۔ نہ ہی ہماری عورتیں بے حیا ہیں۔ عورت مارچ ہو ہی اس لئے رہا ہے کہ ایک عرصہ سے گھر، دفتر، ہر جگہ اس کو دبایا گیا ہے۔ اس کو پیدا ہونے کے بعد زندہ درگور تک کیا گیا ہے۔ اس کو غیرت کے نام پر قتل بھی کیا گیا ہے اور اس قتل پہ فخر بھی کیا گیا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے معیار اور ہیں اور مرد کے لیے اور۔ ایک طلاق یافتہ عورت منحوس لیکن طلاق یافتہ مرد خوش قسمت۔
جو عورتیں اتوار کے دن مارچ کرنے آ رہی ہیں ان میں سے بیشتر خواتین وہ ہوں گی جن کے حقوق کافی حد تک پورے ہیں۔ یعنی ان میں سے بیشتر خواتین پڑھی لکھی ہیں اور کئی خود کفیل ہیں یا بننے کے قابل ہیں۔ لیکن اس مارچ سے اور اس جد وجہد سے فائدہ ہر ایک عورت کو ہو گا۔ غیرت کے نام پہ قتل کرنے والوں کے اندر کچھ نہ کچھ خوف پیدا ہو گا کہ آواز اٹھانے والے ہیں پیچھے۔
میں ذاتی طور پر نہ اس مارچ کے خلاف ہوں نہ ہی حق میں ہوں۔ میں بس اس بات کے حق میں ہوں کہ کم از کم لوگوں کو بولنے دیا جائے۔ اگر مولانا فضل الرحمان ، طاہر القادری، تحریک انصاف، اور خادم رضوی اپنی مرضی سے جب چاہیں کہیں بھی سڑک بند کر سکتے ہیں اور اپنی بات کر سکتے ہیں اور ان کی باتوں سے جن میں کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں، حکومتیں توڑی اور جوڑی جاتی ہیں، نفرت پھیلائی جاتی ہے اور پھر بھی ہمارے معاشرتی اقدار خراب نہیں ہوتے تو پھر ان عورتوں کے مارچ سے کون سی قیامت آ گئی؟