پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں، مراعات اور پلاٹوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو سپریم کورٹ کے بجٹ کا آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نےاے جی پی محمد اجمل گوندل کو 30 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
نور عالم خان نے کہا کہ معاملہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔
"ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ججز کتنی تنخواہ لے رہے ہیں،" انہوں نے گوندل محمد اجمل گوندل کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے احتساب فورم کو ابھی رپورٹ موصول ہونی ہے۔
انہوں نے اے جی پی کو مزید بتایا کہ کمیٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ قومی خزانے سے کہاں اور کتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔
ڈیڈ لائن جاری کرتے ہوئے پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ 'کسی کو یہ کام کرنا ہے تو میں یہ آڈٹ شروع کر رہا ہوں۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے بھجوایا گیا ہے۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جج، ان کے اہلخانہ کی جائیدادوں کی اور آڈیو لیک جیسے معاملات کی تحقیقات کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ریفرنس میں اپیل کی گئی کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثوں کی تحقیقات کرے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثے 3 ارب روپے سے زائد مالیت کے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔ گلبرگ تھری لاہور میں 2 کنال 4 مرلےکا پلاٹ ہے۔ سینٹ جون پارک لاہورکینٹ میں 4 کنال کا پلاٹ ہے۔ اثاثوں میں گوجرانوالا الائیڈ پارک میں غیر ظاہر شدہ پلازہ بھی شامل ہے۔
ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہےکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مبینہ طور پر 2021 میں 3 بار سالانہ گوشواروں میں ترمیم کی، گوشواروں میں ترمیم گوجرانوالا ڈی ایچ اے میں گھر کی مالیت ایڈجسٹ کرنےکے لیےکی گئی۔ پہلےگھرکی مالیت47 لاکھ پھر 6 کروڑ اور پھر 72 کروڑ ظاہرکی گئی۔