سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے برطرف کرنے کی سفارش کر دی۔
مظاہر علی اکبر نقوی اپنے خلاف مس کنڈکٹ کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد استعفیٰ دے چکے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے استعفیٰ دینے کے بعد مس کنڈکٹ کی تحقیقات جاری رکھیں اور آج فیصلہ سنا دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نےمظاہر نقوی کو برطرف کرنےکی سفارش کر تے ہوئے اپنی رائے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق نمبر 5 میں ترمیم کی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز پر الزامات لگا کر ان کی تشہیرکی گئی۔کئی ججز نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ ججز کا مؤقف ہےکہ بےبنیاد الزامات پر جواب دینے سے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 کی خلاف ورزی ہوگی۔ کونسل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ بےبنیاد الزامات کا جواب دینے سے شق 5 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ تاہم ججز کی تشویش کے باعث ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 5 میں ترمیم کی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوں کے خلاف 6 شکایات کا جائزہ لیا۔ 6 میں سے 5 شکایات میں ایسا کوئی مواد نہیں تھا جس پرکونسل کارروائی کرے۔
چھٹی شکایت بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کے متعلق تھی۔ اس شکایت کی سماعت کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کو نوٹس جاری کیا ہے اور نوٹس کا جواب جمع کرانےکے لیے 14 دن کا وقت دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مظاہر علی اکبر نقوی کےخلاف 9 شکایات کا جائزہ
سپریم جوڈیشل کونسل نےمظاہر نقوی کے متعلق 9 شکایات کا جائزہ لیا، ان شکایات کا جائزہ آئین کےآرٹیکل 206 کی شق (6) کے تحت لیا گیا۔ مظاہر علی اکبر نقوی ان شکایات کی تحقیقات میں مس کنڈکٹ کےمرتکب پائےگئے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے قرار دیا کہ مظاہر علی اکبرنقوی کو جج کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج مظاہر نقوی کیخلاف رائے دے دی ہے تاہم اس رائے پر کارروائی کا مجاز صدر مملکت ہے۔
مظاہر علی اکبر نقوی کے متعلق اور دیگر شکایات کے متعلق تحقیقات کے لئے جوڈیشل کونسل کا اجلاس 28 فروری اور یکم مارچ کو ہوا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کے خلاف چھ شکایات کا جائزہ لیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی جج کیخلاف جب تک شکایت پبلک نہیں ہوتی تب تک جج کا نام ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔اور لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
وکیل میاں داؤد کی جانب سےریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، جج پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
جس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات پر جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔
یاد رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔
جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔