Get Alerts

مِس کنڈکٹ ریفرنس: جسٹس مظاہر نقوی نے  جوڈیشل کونسل کے دوسرے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادیا

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ میرے خلاف شکایات بے بنیاد ہیں۔کھلی عدالت میں آئینی درخواستیں زیر سماعت ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی بلاجواز ہے۔

مِس کنڈکٹ ریفرنس: جسٹس مظاہر نقوی نے  جوڈیشل کونسل کے دوسرے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادیا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف   مِس کنڈکٹ ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی جانب سے جاری کردہ دوسرے شوکاز نوٹس پر تفصیلی جواب جمع کرادیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ میرے خلاف شکایات بے بنیاد ہیں۔کھلی عدالت میں آئینی درخواستیں زیر سماعت ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی بلاجواز ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو جواب جمع کرانے کا آخری موقع دیا تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف جوڈیشل کونسل کا آئندہ اجلاس 11 جنوری کو ہوگا۔

واضح رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

30 نومبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

4 دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

14 دسمبر کو  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا۔ جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو مِس کنڈکٹ ریفرنس میں جواب جمع کروانے کیلئے یکم جنوری تک مہلت دی ہے۔

15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی ۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

15 دسمبر کے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو مِس کنڈکٹ ریفرنس میں جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ یکم جنوری کے بعد مہلت نہیں ملے گی۔ اگر جسٹس مظاہر نقوی کا جواب تسلی بخش ہوا تو کونسل کارروائی ختم کر دے گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنے ساتھی جج کے خلاف کارروائی کرنا بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ساتھی جج کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوال جواب کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آڈیو لیکس میں دیکھنا ہوگا کہ آڈیوز درست ہیں یا نہیں۔ آج کل تو کوئی بھی آڈیوز توڑ مروڑ کر بنا دیتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی بھی اوپن کر دی اور مزید سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی گئی تھی۔