پسنی کا ساحل کچھوؤں کے لیے غیر محفوظ مسکن بن چکا

گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر آبی حیات سدھیر بلوچ نے بتایا کہ گھوسٹ جال اور فشنگ کچھوؤں کی اموات کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آبی آلودگی اور پلاسٹک جال کے بے دریغ استعمال سے کچھوؤں اور دیگر آبی حیات کو بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔

پسنی کا ساحل کچھوؤں کے لیے غیر محفوظ مسکن بن چکا

پسنی کے ساحلی علاقے ماضی قریب تک آبی حیات کے لیے محفوظ تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں انواع و اقسام کی سمندری مخلوقات پائی جاتی ہیں اور بعض یہ ساحلی علاقے سمندری حیات کی محفوظ پناہ گاہیں بھی ہیں۔

تاہم اب پسنی کے ساحلی علاقے میں ایک زیتونی کچھوا مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔ کچھوؤں کی یہ قسم ماضی قریب تک بلوچستان کے سمندری علاقوں میں افزائش نسل کے لیے آتی رہی ہے مگر کچھ سالوں سے یہ افزائش نسل کے لیے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کا رخ نہیں کر رہی۔ ماہرین آبی حیات کہتے ہیں کہ اس کی وجوہات جاننے کے لیے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ماہرین کہتے ہیں کہ کچھوے شور، روشنی اور آواز کی وجہ سے انڈہ نہیں دیتے۔ کچھوے انڈہ دینے کے لیے رات کے اوقات میں ساحل پر آتے ہیں اور متواتر تین راتوں تک ساحل پر انڈے دیتے ہیں۔ انسانی مداخلت اور دیگر وجوہات کی بنا پر اگر ڈسٹرب ہو جائیں تو ساحل کا رخ نہیں کرتے اور ان کے انڈے تحلیل ہو جاتے ہیں۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر آبی حیات سدھیر بلوچ نے بتایا کہ گھوسٹ جال اور فشنگ کچھوؤں کی اموات کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آبی آلودگی اور پلاسٹک جال کے بے دریغ استعمال سے کچھوؤں اور دیگر آبی حیات کو بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سائنسی بنیادوں پر تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے اموات کی اصل وجوہات سامنے نہیں آ رہیں۔ ان کے مطابق بدقسمتی سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں اموات کے شکار کچھوؤں کا ڈیٹا بھی کوئی ادارہ مکمل طور پر اکٹھا نہیں کر رہا جس کی وجہ سے مکمل ڈیٹا بھی دستیاب نہیں ہے۔