محمد رضوان اور بابر اعظم  کو  پھر جوئے باز کمپنیوں کی بڑی آفر، سٹے بازوں کو منہ کی کھانی پڑی

بابر اعظم نے 250 ملین روپے کے سالانہ کنٹریکٹ سے انکار کیا جبکہ محمد رضوان نے صرف ایک سروگیٹ بیٹنگ کمپنی کے 100 ملین روپے کے سالانہ معاہدے سے انکار کیا۔

محمد رضوان اور بابر اعظم  کو  پھر جوئے باز کمپنیوں کی بڑی آفر، سٹے بازوں کو منہ کی کھانی پڑی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور وکٹ کیپر محمد رضوان نے کروڑوں روپے کی آفر کو ٹھکرا کر سٹے بازوں کو منہ کی کھانی پر محبور کر دیا ہے اور ان کمپنیوں کو ختم  کرنے کے لیے   محمد رضوان ،بابر اعظم اور ساتھی کھلاڑی نے پاکستان کی ایک بڑی اہم شخصیت کو شکایت لگا دی۔

سوال یہ بھی ہے کہ  پلئیر ایجنٹ کمپنی تو  چار سال سے تھی لیکن اس کا ایشو پہلے اتنا نہیں بڑھا، پھر اب کیوں سامنے آیا؟ تھوڑا بہت پی ایس ایل  کے دوران آیا تھا جب محمد رضوان نے بیٹنگ کمپنی کا لوگو سینے  پر لگانے سے انکار کیا تھا 

پھر اس کے بعد تب سامنے آیا جب سنٹرل کنٹریکٹ کرنے کی باری آئی۔

سنٹرل کنٹریکٹ کے بعد ورلڈ کپ کے دوران آیا جب ٹیم دوسرے ملک یعنی کہ انڈیا میں موجود تھی  تب یہ مسئلہ زیادہ ابھر کر سامنے آ یا ۔

ذرائع کے مطابق اس معاملے کا آغاز پی ایس ایل کے دوران ہوا جب ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے اپنی کٹ پر ولف ٹرپل سیون  کا  لوگو لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ محمد رضوان پر پریشر بھی ڈالا گیا لیکن رضوان نے کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے  ساتھ ہی کپتان بابر اعظم  کو بھی آفرز ہوئی لیکن بابر اعظم نے  ان کے ساتھ معاہدے سےصاف صاف انکار کر دیا تھا ۔

پھر اس کے بعد لنکن پریمئیر لیگ میں بابر اعظم نے اپنا اصولی موقف اپنایا کہ میں جہاں بھی کھیلوں، جوئے کی کمپنی کی تشہیر نہیں کروں گا اور نہ ہی ان کا لوگو اپنی وردی پر لگاوں گا۔

یہ نہ  صرف لنکن پریمئیر لیگ کے لیے تھا بلکہ آئندہ ہونے والی مختلف لیگ کے لیے بھی اور ساتھ  میں اپنے کرکٹ بورڈ کے ساتھ سنٹرل کنٹریکٹ  میں بھی یہ شک شامل کرنے کا موقف تھا۔

ذرائع کے مطابق سنٹرل کنٹریکٹ پر معاہدہ بھی اسی  شک کی وجہ سے لیٹ ہوا لیکن   لنکن پریمئیر لیگ کے بعدکھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کا   سنٹرل کنٹریکٹ پر معاہدہ نہیں ہوا۔

ذرائع کے مطابق کھلاڑیوں نے خصوصا محمد رضوان اور بابر اعظم نے  بورڈ کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم کسی بیٹنگ کمپنی سے نہ معاہدہ کریں گے اور نہ ہی ان کی تشہیر میں حصہ لیں گے۔

لیکن ذرائع کے مطابق ان پر بوجھ ڈالا جاتا رہا کہ وہ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن کھلاڑی بھی ڈٹے رہے اور یہی وجہ بنی سنٹرل کنٹریکٹ پر معاہدہ  نہ ہو سکا۔

ذرائع کے مطابق جب کھلاڑیوں کو مجبور کیا جا رہا تھا تب انہوں نے  پاکستان کی ایک بااثرشخصیت کو شکایت لگائی 

اور بتایا کہ ہم اپنے اسلامی اصولوں پر رہ کے کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔جبکہ بورڈ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم  مبینہ طور پر بیٹنگ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کریں۔ جس پر اس بااثر شخصیت نے کھلاڑیوں کے عز م کو سراہا اور مکمل یقین دلایا کہ  وہ بے فکر ہو کر  کھیلیں اور پاکستان کا نام روشن کریں۔

جس کے بعد وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات  نے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا  جس میں  تمام بیٹنگ کمپنیوں کا نام شامل تھا اور پی سی بی سمیت تمام متعلقہ اداروں اور نیوز اداروں کو  پابند کیا گیا کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ نہ کریں جس میں کئی بیٹنگ کمپنیاں تھی جو پی ایس ایل اور بورڈ کے ساتھ منسلک تھی۔ پھر اس کے بعد سنٹرل کنٹریکٹ کا معاملہ طویل ہوگیا۔

اس سے پہلے کھلاڑیوں کے خلاف پروپیگنڈا  شروع ہو گیا ۔ پلئیر ایجنٹ کمپنی سکینڈل سامنے آگیا جبکہ انضمام الحق کے مطابق سایہ کارپوریشن کے ساتھ  چار سال سے کھلاڑی منسلک تھے۔

جس کمپنی کے ذریعے  پروپیگنڈ اکیا گیا 'یازو انٹرنیشنل' وہ ایک ہیلمٹ کمپنی تھی جو اب بند ہو چکی ہے۔

اب سوال یہ ہےکہ کیوں  ورلڈ کپ سے قبل یہ ایشو کھڑا کیا گیا؟ کیوں کھلاڑیوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا؟ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان معاہدے میں کھلاڑیوں کو کیوں کسی کو شکایت لگانی پڑی؟ اس کے علاوہ بھی کئی سوال ہیں جب کے جوابات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو  کرکٹ بورڈ اور پاکستان ٹیم کی ساکھ برقرار رکھنے  کے لیے ان تمام معاملات کی تحقیقات اور موثر کارروائی کرنی چاہیے۔ قومی کرکٹ بورڈ کو  واضح موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ  بورڈ انتظامیہ اور ٹیم کے کسی کھلاڑی کو متنازع کرنے کے کسی بھی پروپیگنڈا کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کیا جاسکے۔