جیلوں میں موجود قیدی عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کر پائیں گے؟

جیل ذرائع کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اب تک ایسے خاطر خواہ انتظامات سامنے نہیں آئے جن سے جیلوں میں قید مجموعی طور پر 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو آئندہ عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا جا سکے۔

جیلوں میں موجود قیدی عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کر پائیں گے؟

ملکی قوانین کے مطابق قیدیوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق ہر وہ شخص ووٹ دینے کا حق دار ہو گا جو پاکستان کی شہریت کا حامل ہے اور اس کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو۔ اس اہلیت پر جو شخص پورا اترتا ہے اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہو گا۔ مقررہ اہلیت کے حامل قیدیوں کو بھی آئین میں ووٹنگ کا حق دیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 93 (ڈی) کے مطابق جیل میں نظر بند یا حراست میں رکھے جانے والے شخص سے پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرایا جا سکتا ہے۔ مگر قیدیوں کے ووٹ کا طریقہ کار کچھ مشکل ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ قیدیوں کو ووٹنگ کے عمل میں شامل ہونے کے طریقہ کار کا علم بھی نہیں۔

صوبہ سندھ میں محکمہ جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل سید منور علی شاہ کے مطابق سندھ میں کل 27 جیلیں ہیں۔ ان میں کراچی، حیدرآباد، سکھر میں 5 سنٹرل جیلیں ہیں جبکہ 11 ڈسٹرکٹ جیلیں ہیں۔ کراچی میں 4 جبکہ حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، ٹھٹھہ، شہید بینظیر آباد، لاڑکانہ اور شکارپور میں ایک ایک جیل ہے۔ ان کے علاوہ خواتین کے لیے 4 جیلیں جبکہ کم عمر قیدیوں کے لیے 4 اوپن جیلیں شامل ہیں۔ ان 27 میں سے اس وقت 24 جیلیں کھلی ہیں جبکہ 3 بند ہیں۔

بند پڑی جیلوں میں میرپور خاص، شہید بینظیر آباد اور بدین جیل شامل ہیں۔ بدین کی اوپن جیل کا پلان ادھورا ہے۔ اوپن جیل ایک منفرد جیل ہے جہاں قیدی سلاخوں کے بغیر گاؤں کے ماحول کے مطابق رہائش پذیر ہو گا اور وہاں پر کھیتی باڑی کا کام کرے گا۔ وہ جیل اس لیے انتہائی دلچسپ ہو گی جہاں پر قیدی آزادی کے ساتھ جیل کی زمین میں کھیتی باڑی کر کے سبزیاں اور اناج اگانے کے لیے مشقت کرے گا۔

آئی جی جیل خانہ جات سندھ سید منور علی شاہ کے مطابق کراچی، لاڑکانہ اور شکارپور کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے کی جیلوں کی گنجائش 13 ہزار قیدی رکھنے کی ہے مگر جیلوں میں ساڑھے 15 ہزار قیدی موجود ہیں۔ جیل اصلاحات کے ساتھ ساتھ صوبے میں مزید 8 نئی جیلیں بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ نئی جیلیں سندھ کے شہروں بشمول ٹھٹھہ، نواب شاہ، قمبر شہداد کوٹ، کندھ کوٹ، مٹھی، ملیر اور کراچی کے ضلع ویسٹ میں بنائی جائیں گی جبکہ میرپور خاص میں ایک جیل خواتین کے لیے بنائی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کا معلوم نہیں، مگر آنے والے عام انتخابات میں ہماری کوشش ہو گی کہ قیدیوں کو رائے دہی کا پورا حق حاصل ہو۔ جیل مینوئل کے مطابق ہر قیدی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور قیدی بیلٹ پیپر بذریعہ جیل انتظامیہ متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کو درخواست دے کر بیرک میں منگوا سکتا ہے۔ تاہم قیدیوں کو ووٹنگ کے عمل میں شامل کرنے سے متعلق تاحال الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ذرائع جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 40 مختلف جیلوں میں ایک ہزار خواتین سمیت 49 ہزار 100 قیدی موجود ہیں جبکہ سندھ کی 27 جیلوں میں 200 خواتین سمیت قیدیوں کی تعداد 19 ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کی 23 جیلوں میں 220 خواتین سمیت 10 ہزار 50 اور بلوچستان کی 11 مختلف جیلوں میں 20 خواتین سمیت 2100 سے زائد قیدی موجود ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت موجود قیدیوں کی مجموعی تعداد 80 ہزار 250 ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات سندھ کے عہدے سے تبدیل کئے گئے آفیسر نصرت منگن نے کہا کہ کسی بھی قیدی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔ تاہم میں نے کبھی کسی انتخابی امیدوار کو جیل کے اندر قیدیوں سے ووٹ مانگتے ہوئے نہیں دیکھا، اس لیے بھی قیدی ووٹ ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں۔ قیدی اپنا بیلٹ پیپر جیل انتظامیہ کی مدد سے متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کو درخواست دے کر جیل میں منگوا سکتا ہے اور کاسٹ کر کے سربمہر لفافہ بھیج کر اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے۔

نصرت منگن کے مطابق قیدیوں کو اس حوالے سے شعور یا آگاہی نہیں دی جاتی اور جیل انتظامیہ بھی اسے خواہ مخواہ کی مشق سمجھ کر اپنا کام بڑھانے سے گریز کرتی ہے۔

جیل ذرائع کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اب تک ایسے خاطر خواہ انتظامات سامنے نہیں آئے جن سے جیلوں میں قید مجموعی طور پر 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو آئندہ عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا جا سکے۔

سابق الیکشن کمشنر سندھ طارق اقبال قادری کے مطابق مئی 2013 کے انتخابات میں بھی قیدیوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی تھی جبکہ 2008 کے الیکشن میں سندھ میں محض 10 قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرائے گئے تھے۔ 2018 کے عام انتخابات کے دوران سندھ کی مختلف جیلوں سے ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرایا جا سکا تھا۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ضلع کشمور ستار سردار نے قیدیوں کے ووٹ کے حوالے سے بتایا کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد الیکشن سے ایک ماہ قبل تک قیدیوں کو وقت دیا جاتا ہے۔ اس دوران جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ جیل کے اندر قیدیوں کو ووٹ دینے کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ جو قیدی ووٹ دینا چاہے اسے چاہئیے کہ ریٹرنگ آفیسر کے نام درخواست لکھے۔ ایک ہفتے کے دوران اس درخواست کے جواب میں قیدی کو دو لفافوں سمیت بیلٹ پیپر بھیجا جائے گا۔ قیدی بیلٹ پیپر پر اپنا نام لکھ کر دوسرے لفافے میں بند کر کے پوسٹ کرے گا۔ ان ووٹرز کی فہرست ریٹرنگ آفیسر اپنے رجسٹر میں لکھ کر ووٹرز کی تعداد سے آگاہ کرے گا۔ اس طریقہ کار سے قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کروائے جا سکتے ہیں۔

کندھ کوٹ سب جیل میں 9 قیدی ایسے ہیں جو حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں موجود سونو جاگیرانی نامی قیدی بیمار ہے۔ اس کی ٹانگ میں بہت درد ہے۔ وہ ڈاکٹر کے لیے بار بار بلا رہا ہے مگر ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ یہاں قیدیوں کی تکالیف کو نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ اس قیدی کا کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں ہم بھی ووٹ کاسٹ کریں گے اور ہماری کچھ شرائط ہوں گی جن پر انتخابی نمائندگان کو پورا اترنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تو ہمیں آگاہ کیا جائے کہ ہم ووٹ کا حق کس طرہقے سے استعمال کریں۔ دوسرا اگر وہ نمائندہ جیت جائے گا تو اسے وعدہ کرنا ہو گا کہ اسمبلیوں میں جا کر قیدیوں کے لیے قانون سازی کروائے گا، ہمارے حقوق پر بات کرے گا، جیلوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور قیدیوں سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرے گا۔ جو امیدوار ان معاملات پر وعدہ کرے گا ہم ووٹ اسے دیں گے۔

کندھ کوٹ سب جیل کے جیلر عبدالمالک داؤد پوتہ کا کہنا ہے کہ اس وقت سب جیل میں 9 قیدی ایسے ہیں جو انڈر ٹرائل ہیں۔ مجھے پہلے تجربہ نہیں ہے کہ قیدی کیسے ووٹ دیں گے کیونکہ مجھے سب جیل کا جیلر ہوئے ابھی ایک ماہ گزرا ہے تو اس سال ضرور کوشش کروں گا کہ جو جیل میں موجود قیدی ہیں انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہو۔ کوشش ہو گی کہ قیدیوں کو بذریعہ ڈاک ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آگاہ کر سکیں۔

انتخابی امیدوار ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی کا کہنا ہے کہ میں نے 2018 کی انتخابی مہم کے دوران این اے 197 کے حلقہ سے جی ڈی اے کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار میں قیدیوں سے ووٹ مانگنے گیا۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے طریقہ کار کے مطابق انتخابی مہم کے دوران تمام امیدوار اپنے حلقے میں جہاں چاہیں جا کر ووٹ مانگ سکتے ہیں، چاہے وہ جیلوں کا رخ کیوں نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے قیدیوں سے ووٹ لینے کے لیے مؤدبانہ الفاظ میں درخواست کی تھی، جہاں قیدیوں کے ہزاروں مسائل کا سامنا ہوا۔ ان مسائل میں بیمار قیدیوں کا علاج، خوراک کی قلت اور انسٹی ٹیوٹ کی عدم موجودگی سے قیدیوں کی مشکلات کی تعداد میں اضافہ شامل ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ جب الہیٰ بخش نامی ایک قیدی (فرضی نام) نے مجھے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار آپ جیسا پڑھا لکھا امیدوار ووٹ لینے ہمارے پاس آیا ہے، خوشی کے تاثرات نظر آئے اور قیدیوں کو ان کی اہمیت کا احساس ہوا۔ سب جیل میں میڈیکل آفیسر مقرر نہیں تھا اور علاج کے لئے قیدیوں کو سول اسپتال لایا جاتا تھا۔ کھانا غیر معیاری تھا۔ قانون کے مطابق ہر شہری ووٹ کی اہلیت کا حامل ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جیل خانوں میں قیدی بھائیوں کو ووٹ کی قدر و قیمت سے آگاہ ہی نہیں کیا جاتا۔

ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی نے مزید کہا کہ وہ سال 2023 کے انتخابات میں پی ایس 05 سے آزاد امیدوار ہیں اور اگر کامیاب ہو گئے تو پہلا کام قیدیوں کے لیے قانون سازی کروائیں گے۔ قید خانوں میں فلاحی کام شروع کرنا، قیدیوں کو قانون کی آگاہی دینا اور انہیں فلاحی، صحت اور تعلیم جیسے پروگرامز کے ذریعے اہم حیثیت دینا ان کا مشن ہے۔ وہ پاکستان ایکٹ کے مطابق قانون کی بنیادی معرفت کو قیدیوں کو سمجھانے کے لئے عمل درآمد کریں گے تا کہ وہ بعد میں باہر آ کر انسانوں کے ساتھ محبت و ہمدردی کریں۔

قوم پرست پارٹی کے انتخابی امیدوار دلمراد داہانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات اور 2016 کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 2013 کے عام انتخابات میں پی ایس 04 تنگوانی تحصیل میں ایس ٹی پی پارٹی کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس وقت بھی جیل خانوں کے قیدیوں کے پاس ووٹ کے حصول کے لیے گیا تھا اور اس کے علاوہ 2018 کے عام انتخابات میں ایس یو پی پارٹی کے ٹکٹ پر مضبوط امیدوار کے ساتھ کندھ کوٹ پی ایس 05 حلقے سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اتنے سالوں میں جیل کے قیدیوں کے مسائل بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ چکے تھے۔ پولیس کا رویہ قیدیوں کو مزید گناہ کرنے پر اکساتا ہے اور یہ روایت وقت کے ساتھ کم نہیں ہو سکی۔

تمام صورت حال کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ جیل میں پڑے قیدیوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا حق نہیں دیا جاتا جبکہ پاکستان کے ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ ہزاروں قیدی حالیہ عام انتخابات میں ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہئیے کہ جیلوں میں قیدیوں کی ووٹنگ کا عمل نمایاں کیا جائے اور انتخابی امیدواران کو بھی چاہئیے کہ وہ مہم کے دوران قیدیوں سے ووٹ مانگنے جائیں تاکہ قیدیوں کے ووٹ کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔