توہین مذہب کے الزام میں قید اسکالر جنید حفیظ کون ہیں؟

توہین مذہب کے الزام میں قید اسکالر جنید حفیظ کون ہیں؟
توہین مذہب کے الزام میں ملتان کی سینٹرل جیل میں قید بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر کا کہنا ہے کہ جنید جیل میں مشکل وقت گزار رہا ہے لیکن اس نے پڑھنا نہیں چھوڑا اور اب تک اس نے جیل میں پانچ ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے راجن پور کے حفیظ النصیر پراعتماد ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا۔ ان کا خیال ہے کہ اب تک جتنی سماعتیں ہو چکی ہے اور جو گواہ پیش ہو چکے ہیں اور وکلا جس طرح کی جرح کر چکے ہیں، اس سے ہمیں لگتا ہے کہ میرے بیٹے جنید پر لگے الزامات جھوٹے ثابت ہوں گے۔


’’وہ اپنے اپنے حساب سے جھوٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگائے تھے۔ وہ صحیح ثابت نہیں کر سکے۔ انشاءاللہ ہمیں امید ہے کہ اسی کورٹ سے ہمیں بریت ملے گی اور میرا بیٹا جنید رہا ہو گا۔"


پاکستان میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں وجیہ الحسن نامی شخص کو توہین مذہب کے الزام میں سترہ سال قید کے بعد رہا کیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو دس سال قید تنہائی میں گزارنے کے بعد معصوم قرار دے کر رہا کیا۔

جنید حفیظ کا معاملہ ہے کیا؟

جنید حفیظ کا تعلق پنجاب کے شہر راجن پور سے ہے۔ وہ دو ہزار دس میں امریکا کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے شوق سے واپس پاکستان آئے۔


جنید حفیظ پر ملتان کے تھانہ الپا کے ایس ایچ او کی مدعیت میں توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ کیس اس وقت شہ سرخیوں میں آیا، جب مدثر نامی وکیل نے یہ کیس لڑنے کا فیصلہ کیا اور پہلے ہی دن وکیلوں کے ایک گروہ نے یہ کیس لینے پر مدثر کو ہراساں کیا۔

بعدازاں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے یہ کیس ملتان میں راشد رحمان کو ریفر کیا گیا۔ راشد رحمان اس کیس سے پہلے ملتان میں ہی درج ہونے والے توہین مذہب کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کا بھی دفاع کرچکے تھے جس پر انہیں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

توہین مذہب کیس میں جنید حفیظ کا دفاع کرنے پر ایڈووکیٹ راشد رحمان کو متعدد بار قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جس کے باوجود راشد رحمان نے یہ کیس چھوڑنے سے انکار کردیا۔

سات مئی 2014 کو راشد رحمان کو دو مسلح افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کر دیا۔

چھ سال سے قید جنید حفیظ نے انٹرمیڈیٹ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس کے بعد انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور کے کنگ ایڈوڑ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔

دو سال تک میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ادب کی دنیا کو کھوجنے کی ٹھانی۔ ان دو سالوں میں ہی جنید حفیظ کی پہلی نظم "Hey You" خلیج ٹائمز کے ینگ ٹائمز سیکشن میں چھپی۔ جس میں انہوں نے ایک اکیس سالہ نوجوان کے بدلتی سوچ کی عکاسی کی۔

When I see you

I feel fairies smiling at me

Angels sprinkling dewdrops

The sun, the moon and the stars

the larks, the waters and flowers

this whole Universe dedicated to me

میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد جنید حفیظ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کے لیے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جس کے دوران جنید حفیظ بطور فل برائٹ اسکالر امریکی ادب میں ماسٹرز کرنے امریکہ کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی چلے گئے۔

اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جنید حفیظ نے شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے لیے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کو ہی منتخب کیا۔

جنید حفیظ کے وکیل کا کہنا ہے کہ جنید حفیظ بطور وزیٹنگ لیکچرار بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں تعینات تھے اور انہی دنوں یونیورسٹی میں سینڈیکیٹ انتخابات آگئے۔

ان انتخابات میں جنید حفیظ نے شعبہ انگریزی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شیریں زبیر کی حمایت کی جبکہ مخالف دھڑے کا تعلق ایک مذہبی تنظیم سے تھا۔

جنید حفیظ کے وکیل  کا مزید کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران ہی یونیورسٹی میں مستقل لیکچرار کے لئے آسامی نکل آئی۔ جس کے لیے جنید بھی امیدوار تھا۔ اسی آسامی کے لیے مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار بھی تھے۔

جنید حفیظ کے وکیل  کے مطابق اس مخالفت کے سبب جنید حفیظ پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر مبینہ طور پر توہین آمیز مواد شائع کیا ہے۔

اس الزام کے بعد تھانہ ایس ایچ او الپا، نیاز احمد کی مدعیت میں جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا میں سے ایک چوہدری ضیا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جنید حفیظ نے یونیورسٹی کے نوٹس بورڈ پر مذہبی توہین آمیز مواد چسپاں کیا تھا۔

ان کے مطابق فیس بک پیج "so called liberals of Pakistan" پر بھی جنید حفیظ کی طرف سے توہین مذہب سے متعلق پوسٹ کی گئی تھی۔ چوہدری ضیا کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے ہال میں ہونے والی ایک تقریب میں جنید حفیظ نے توہین مذہب سے متعلق الفاظ استعمال کئے تھے۔

https://twitter.com/amnestysasia/status/1176727394050281472?s=20

اس ماہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر جنید حفیظ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ جولائی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ایک بیان میں پاکستان پر جنید حفیظ کی رہائی کے لیے زور ڈالا۔

لیکن پاکستان میں حکومت ہو یا اعلیٰ عدلیہ کسی کو اس کیس کی سُست روی کی بظاہر پرواہ نہیں۔  سرکاری وکلاء کیس کی پیروی کرنے میں مختلف بہانوں سے تاریخ پہ تاریخ لیتے آئے ہیں۔ پچھلے چھہ برس میں  اس کیس کے جج سات بار تبدیل ہوچکے ہیں۔

امریکا کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پاکستان کے جنید حفیظ کا نام شاید آج بھی دنیا کے مایہ ناز اسکالروں کی فہرست میں آویزاں ہو۔ لیکن سینٹرل جیل ملتان کی کال کوٹھڑی میں تنہا بیٹھا وہ لیکچرار دن گن رہا ہے کہ  کب یہ تاریک رات  ختم ہوگی اور اسے بھی انصاف ملے گا۔