توہین مذہب کے الزام میں قید جنید حفیظ کے والدین کی چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل

توہین مذہب کے الزام میں قید جنید حفیظ کے والدین کی چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل
توہین مذہب کے الزام میں ملتان کی سینٹرل جیل میں قید بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کے والدین نے  چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ ان کا بیٹا 6 سال سے جھوٹے مقدمات میں قید ہے جبکہ 3 ستمبر کو استغاثہ کے آخری گواہ پولیس کے تفتیشی افسر کی جرع کے بعد بھی تین ماہ میں فیصلہ نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ انکا بیٹا ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہا ہے، انہیں انصاف دلایا جائے ۔

جنید حفیظ کون ہیں اور ان کا جرم کیا تھا؟

پنجاب کے پسماندہ سمجھے جانے والے ضلع راجن پور کے رہائشی جنید حفیظ نے میٹرک میں ٹاپ کیا۔ ایف ایس سی پری میڈیکل میں ڈیرہ غازی خان بورڈ سے پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جب کہ میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں صوبے کے سب بڑے میڈیکل کالج کنگ ایڈورڈ میں رول نمبر ون دیا گیا۔ دو سال وہ میڈیکل میں ٹاپ کرتے رہے۔



اس کے بعد انہوں نے میڈیکل کا شعبہ چھوڑ کر والدین کی اجازت سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں شعبہ انگریزی سے ایم اے انگلش کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔

ایم اے انگریزی لٹریچر میں بھی وہ ٹاپر رہے۔ اسی لیے انہیں اس شعبہ میں وزٹنگ لیکچرار مقررکر دیا گیا۔ جلد ہی اپنی قابلیت کی بنیاد پر وہ لیکچرار بن گئے۔ انہیں امریکہ کی جانب سے مقابلے کا امتحان پہلی پوزیشن لے کر پاس کرنے پر فلم میکنگ کی تربیت کا سکالر شپ ملا اور وہ ایک سال کا یہ کورس امریکہ میں مکمل کر کے واپس آئے۔

ان کے دوستوں کے مطابق اس دوران ان کا جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چند پروفیسروں اور جمعیت کے طلبہ سے جھگڑا ہو گیا۔ انہوں نے جنید حفیظ پر توہین مذہب کا الزام لگایا کہ وہ فیس بک کا ایک خفیہ پیج چلاتے ہیں جس پر توہین مذہب کا پرچار کیا جاتا ہے۔ جب ان کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں اور یونیورسٹی میں جلوس نکلنے شروع ہو گئے تو پولیس نے لاہور سے انہیں 13مارچ 2013 کو گرفتار کر لیا۔

پولیس نے ان کی جان بچانے کے لیے انہیں نامعلوم مقام پر رکھا۔ کوئی بھی وکیل انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کو تیار نہ ہوا تو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل راشد رحمٰن نے ان کا کیس لیا اور انصاف کے لیے عدالتوں کے روبرو پیش ہونے شروع ہو گئے۔

ڈیڑھ سال بعد نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ملتان میں گولیاں مار کر راشد رحمٰن کو قتل کر دیا۔ ان کے قاتل بھی آج تک گرفتار نہیں ہوئے۔




جنید حفیظ بھی بغیر کسی قانونی مدد کے سینٹرل جیل ملتان میں ہر صبح سورج طلوع ہونے پر کسی قانونی مددکی امید کرتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق دو سال سے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی طرف سے ایک وکیل کو اس مقدمے کی پیروی پر مامور کر رکھا ہے۔ اس کیس کی سماعت ملتان کی مقامی عدالت میں جاری ہے۔