پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
آسیہ بی بی پر توہین رسالت کے الزام اور گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مذہبی بےحرمتی کا قانون پاکستان میں قومی سطح پر ایک بڑا مسلئہ بن کر ابھرا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان صرف اس ایک ایشو پر ملک کی ایک طاقتور مذہبی اور سیاسی قوت بن چکی ہے۔ یہ جماعت ان مذہبی گروپوں کی نمائندگی کرتی ہے جو مذہب کی توہین کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کی حق میں ہیں۔ بنیادی طور پر توہین رسالتؐ برطانوی راج میں لاگو کیے گئے مذہبی بےحرمتی کے قانون کی اضافی شق ہے۔ برطانوی دور میں اس قانون کا مقصد برصغیر میں مذہبی عبادات کی حفاظت اور مذہبی فسادات کی روک تھام تھا۔ لیکن اس قانون کو شدت سے لاگو کرنے کی کوششش جنرل ضیا کے آخری سالوں میں کی گئی جب آئین میں ترمیم کر کے سزاؤں کو مزید سخت بنایا گیا۔ توہین رسالتؐ کی ترمیم اسی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اس ترمیم (295C) کے مطابق اگر کوئی بھی شخص حضرت محمدؐ کے متعلق گستاخی کا مرتکب ہو تو اس کی سزا صرف موت ہے۔ دوسری اہم ترمیم سیکشن 298 کی شق بی اور سی میں کی گئی جس کے تحت پاکستان میں احمدی مسلمانوں پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کو جرم قرار دینے کے ساتھ ساتھ روایتی اسلامی اصلاحات کو استعمال کرنے کو بھی جرم قرار دیا گیا۔

مذہبی بے حرمتی کے قوانین سے جڑے نمایاں منفی پہلو درج ذیل ہیں:

  • مذہبی بےحرمتی کے قانون کا ذاتی اور سیاسی فائدے کے لئے استعمال

  • مذہبی آزادی کا استحصال

  • اس قانون کے تحت دی جانے والی سزائیں

  • آزادی حق رائے دہی سے محرومی


https://www.youtube.com/watch?v=BAOj7D5KUbo&t=29s

مذہبی بےحرمتی کے قانون بالخصوص ناموس رسالتؐ کی شِق کا سب سے منفی پہلو اس کا ذاتی انتقام اور سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ پاکستان کی اپنی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اکثر کیسز میں مذہبی توہین کی شکایات درج کرانے والوں کا ملزم سے زاتی عناد یا جھگڑا رہا ہوتا ہے۔ آسیہ بی بی کے معاملے میں بھی اہم وجہ اس کا الزام لگانے والی عورتوں سے پانی کے برتن پر جھگڑا بتایا جاتا ہے۔ لیکن توہین مذہب کے سیاسی استعمال کی قومی سطح پر سب سے بدترین مثال 2017 میں دیکھی گئی جب پانچ بلاگرز کو اغوا کیا گیا اور عوامی رائے کو ان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ان پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا گیا۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق مذہبی عقائد کا چناؤ اور ان پر بغیر کسی روک ٹوک کے زندگی بسر کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان بنانے کے پیچھے بھی اہم محرک مذہبی آزادی کا حصول تھا۔ لیکن پاکستان میں قانون نہ صرف احمدی کمیونٹی کو اپنی مرضی کی مذہبی شناخت سے محروم کرتا ہے بلکہ ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہے جیسے احمدی لوگوں کے لئے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا جرم ہے۔ اور یہ جرم مذہبی بے حرمتی کے قانون کے تحت ہی آتا ہے۔ احمدی عقائد کے لوگ کئی سرکاری ملازمتوں اور حکومتی عہدوں کے اہل بھی نہیں ہیں۔ اس کے اثرات اتنے بھیانک ہیں کہ موجودہ حکومت نے جب ایک احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ماہرِ معیشت کو مشاورتی کونسل کا رکن چنا تو مذہبی جماعتوں کی طرف سے اتنا دباؤ پڑا کہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔



توہین مذہب قوانین کی تیسری اہم خرابی اس کے تحت دی جانے والی سزائیں ہیں۔ مذہبی دل آزاری کو روکنے کے لئے دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں یہ قانون موجود ہے لیکن جن ممالک میں لوگوں کو بہتر انسانی حقوق دستیاب ہیں، وہاں پر اس کی سزا صرف جرمانہ ہے، وہ بھی اگر جرم بدنیتی پر مبنی ہو۔ پاکستان میں ناموس رسالت کی سزا موت ہے اور اس کے ساتھ اس قانون کی سب سے بڑی خرابی گستاخی کی نیت یا ارادے سے کوئی تعلق نہ ہونا ہے۔ کسی بھی لڑائی جھگڑے یا مکالمے کے دوران اشتعال میں کہے گئے الفاظ پھانسی کا سبب بن سکتے ہیں۔ بخیر کسی ارادے اور نیت کے غُصے میں کہے گئے الفاظ پر موت کی سزا بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی۔

توہین مذہب کے قوانین کا چوتھا اہم منفی پہلو آزادی رائے کے حق پر اس کے اثرات ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت عام ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا نے بڑھتی ہوئی لبرل نوجوان نسل کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے جہاں پر مذہب پر مہذب انداز میں تنقید وہ اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن توہین مذہب کے قوانین ان کے سر پر ایک لٹکتی تلوار ہیں جو انہیں ان کی آزادی سے محروم کر سکتی ہے۔

مذہبی بےحرمتی کے ان منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان قوانین کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی طاقتوں کو دیکھ کر یہ کام ان حالات میں مشکل لگتا ہے لیکن اس قانون کے اثرات اتنے افسوسناک ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہیں، اگر ہماری منزل ایک روشن پاکستان کا حصول ہے۔ اس کام کی ابتدا جنرل ضیا کی لائی گئی ترامیم کے خاتمے سے ہونی چاہیے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ توہین مذہب سے جڑی خرابیوں کے مکمل خاتمے کے لئے قانون بدلنے کے ساتھ تعلیمی نصاب میں اصلاحات اور مذہب کے سیاسی استعمال کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔

مصنف قائد اعظم یونیورسٹی، SASSI اور MIIS میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور ان سے masood645@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔