خادم رضوی کا جنازہ: 'وہاں پر موجود ہر شخص میں خادم رضوی بول رہے تھے'

خادم رضوی کا جنازہ: 'وہاں پر موجود ہر شخص میں خادم رضوی بول رہے تھے'
مینار پاکستان کے تین اطراف سے سڑکیں مکمل طور پر بند تھیں ایک راستہ ریلوے اسٹیشن سے جاتا ہے جہاں ایک موریہ پل تک رش ہی رش تھا۔ انسانی سروں کے ساتھ ساتھ ٹریفک بھی بہت تھی۔ مال روڈ سے جو سڑک جاتی ہے اس کو سویرے سویرے پولیس نے کچہری کے پاس سے ہی بند کر دیا ۔

راوی پل کی طرف سے آنے والا راستہ نیازی چوک سے رش کے باعث بند کر دیا گیا تھا۔ میں وہاں ایک ٹی وی چینل کی وقائع نگاری کے لہے موجود تھا۔ جنازے میں شریک افراد سے میں نے مولوی خادم حسین رضوی کے بارے تاثرات ریکارڈ کیے جو بعد میں آن ائیر بھی گئے۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی وہ جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے اور لازمی بات ہے وہ سب خادم رضوی صاحب کے ماننے والوں میں شامل تھے۔

جنازے میں خادم رضوی کے مکتبہ فکر کو ماننے والے مدرسوں کے طالبِ علموں کے علاوہ عام شہریوں کی بہت بڑی تعداد بھی موجود تھی جن میں پڑھے لکھے نوجوانوں جنہوں نے جدید لباس جیسے جینز اور جیکٹیں پہن رکھی تھی ان سب کے مطابق خادم رضوی صاحب اسلام کے عظیم مجاہد اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہاں قابل حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مدرسے کے طالب علم اور جدید یونیورسٹی میں پڑھنے والے کی رائے ایک طرح کی نظر آئی۔ خادم رضوی کی پاکستانی سیاست میں آمد چند سال قبل ہوئی وہ 2017 میں منظر عام پر آنے جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف انہوں نے فیض آباد میں دھرنا دیا جو اس امر کے خلاف تھا کہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد نے توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کی کوشش کی تھی۔

آج بھی وطن عزیز کے سنجیدہ حلقوں میں علامہ  کی سیاست کے حوالے سے بہت تحفظات پائے جاتے ہیں ملکی سیاست میں انکی آمد کے پچھے خفیہ ہاتھ کارفرما تھے جو خادم رضوی کو پلانٹ کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی اکثریت بیت مقتدرہ کے سیاسی کردار سے نا آشنا ہے۔ ایک تو عوام میں پڑھنے لکھنے کا ویسے ہی شوق نہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ارباب اختیار جس میں سیاست دان اور سول و ملٹری بیورو کریسی دونوں شامل ہیں۔

انہوں نے بھی عوامی شعور تشکیل دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ جس کے نتیجے آج ایک اور ہجوم پیدا ہوا جو خادم حسین رضوی کو حکمرانوں کو جرات اور دلیری سے مقابلہ کرنے والا سمجھتا ہے۔ عوام کی اکثریت جس میں مدراس میں پڑھنے والے اور جدید یونیورسٹی میں پڑھنے والے دونوں ایک قطار میں کھڑے ہیں وہ اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ خادم رضوی صاحب کی حیثیت ایک کٹھ پُتلی سے زیادہ نہیں تھی انکی ڈوریاں کو کہیں اور سے ہلایا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خادم رضوی صاحب نے اپنے انداز بیان اور جوش خطابت سے اپنے مداحوں کا وسیع حلقہ پیدا کر لیا تھا اسی وجہ سے انکی سیاسی جماعت تحریک لبیک نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا۔

کوئی سیٹ تو نہ جیت سکے مگر لاہور اور وسطی پنجاب کے بے شمار حلقوں میں انکے ووٹ پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ تھے ،جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ خادم رضوی صاحب کا مائینڈ سیٹ اب لاکھوں لوگوں میں منتقل ہو چکا ہے۔

مرحوم کوئی بہت پڑھے لکھے عالم دین اور فاضل شخص نہیں تھے۔ قرآن وحدیث کا علم جو جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس ہے وہ خادم رضوی سے بہت بلند ہے۔ رضوی صاحب اپنی تقریروں میں اکثر گالی گلوچ اور غیر مسلموں کے بارے نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتے تھے جو کسی طرح بھی ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیب نہیں دیتا۔

بہرحال اب دنیا میں موجود نہیں خدا انکی مغفرت فرمائے۔ مگر بشری انسانی خامیوں کو مرنے کے بعد اچھائی سے بدلا نہیں جا سکتا۔ جس ہجوم کو میں ایک گھنٹے تک دیکھتا رہا ان سے باتیں کرتا رہا سب کے اندر خادم رضوی ہی بول رہے تھے۔ ہمارا سماج جو پہلے ہی انتہا پسندی مذہبی رواداری کے فقدان کا شکار ہے اس میں شدت پسندی کو مزید گہرا کر دیا گیا ہے۔ جو ہمارے ارباب اختیار جس میں بیت مقتدرہ اور سیاست دان دونوں شامل ہیں انکی نااہلی کو مزید نمایاں کرتا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔