ججز تعیناتی: جسٹس عیسیٰ کے بعد دو اور ججز کا خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کا مطالبہ

ججز تعیناتی: جسٹس عیسیٰ کے بعد دو اور ججز کا خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کا مطالبہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دو اور سینیئر ججوں نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلا کر سپریم کورٹ میں ججز کی خالی آسامیوں پر تعیناتیاں عمل میں لائیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ 9 ماہ سے ججز کی آسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ الجہاد کیس کے مطابق سپریم کورٹ کی خالی آسامی پر فوری تعیناتی ضروری ہے۔ خط کے متن کے مطابق آئینی عہدے کو زیادہ عرصہ تک خالی نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا جلد از جلد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلا کر ججز کی تعیناتی کی جائے۔

ججز نے خط میں کہا ہے کہ پانچوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی سپریم کورٹ میں تقرری پر غور کیا جائے یا پھر ہر ہائیکورٹ کے پہلے دو سینیئر ججز کی سپریم کورٹ تعیناتی کے لیے غور کیا جائے۔
خط کے متن کے مطابق متعدد مرتبہ ملاقاتوں میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن کچھ نہیں ہوا، جسٹس فائز عیسیٰ نے بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کے لیے 28 ستمبر کو خط لکھا، ججز تعیناتی میں تاخیر سے عدلیہ میں سیاست اور من پسند تقرریوں کا تاثر پھیل رہا ہے، تقرریوں میں غیر ضروری تاخیر سے تعیناتیوں کے عمل کی شفافیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں، ججز کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔

خط کے متن کے مطابق جوڈیشل کمیشن آئینی ادارہ ہے جس کا سیکرٹری کسی پروفیشنل کو ہونا چاہیے۔ ملاقاتوں میں ججز تعیناتی کے حوالے سے متعدد تجاویز بھی پیش کی تھیں لہٰذا توقع ہے چیف جسٹس جلد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلائیں گے۔

یاد رہے اس سے قبل 28 ستمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی چیف جسٹس کے نام خط لکھ کر فوری طور پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خط کے متن میں قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 50 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت صرف 16 ججز ان مقدمات کی سماعت کے لئے موجود ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بوجھ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال رواں میں پانچ جج سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ابھی تک ان پانچوں کی جگہ نئی تعیناتیاں عمل میں نہیں لائی گئیں۔ انہوں نے لکھا کہ ان ججوں کی غیر موجودگی میں سپریم کورٹ کے اب تک 726 قیمتی دن ضائع ہو چکے ہیں۔