اربابِ اختیار ترجیحات بدل لیں تو دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے

سب سے ضروری اقدام عوام دوست جمہوری حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔ تمام شہریوں کے لیے معاشی اور سماجی انصاف اور یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان عوامل کی غیر موجودگی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواریاں دہشت گردی کو ہوا دیتی ہیں۔ دہشت گرد ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اربابِ اختیار ترجیحات بدل لیں تو دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے

طاقت کے استعمال سے دہشت گردوں کو تو ختم کیا جاسکتا ہے مگر دہشت گردی کو نہیں۔ اگر دہشت گردی کے محرکات اور اس کی وجوہ کو ختم نہیں کیا جاتا تو دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں گے، خون بہتا رہے گا، قوم کے جسم پر چرکے لگتے رہیں گے اور معاشرہ فساد کا شکار ہو کر بے سمت ہو جائے گا۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ ایک حریت پسند اور دہشت گرد کی سوچ میں کیا فرق ہے؟ حریت پسند یا انقلابی غیر منصفانہ اور جابرانہ نظام کا دشمن ہوتا ہے اور وہ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانوں کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی انصاف سے محروم رکھتا ہے۔ وہ اس نظام کی تبدیلی یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں اُسے ریاستی جبر اور دہشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کشمیری ہمارے نواح میں ایسی ہی ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک افغانی بھی اپنی سرزمین پر مسلط طاقتوں سے ایک لمبے عرصے تک نبرد آزما رہے ہیں۔

آزادی سے پہلے ہندوستان میں کتنے حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح یا پرامن جنگ لڑی۔ فلسطین ہو یا کوئی اور خطہ، اس کے لیے کتنی ہی مائوں کے بیٹوں اور بیٹیوں نے لہو دیا۔

ظلم ہے کہ آج کی استعماری طاقتیں جو نوآبادیاتی حکومتوں کا نیا چہرہ ہیں، ان سب کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ دہشت گرد تو نظام کو بدلنے کا خواہاں ہی نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف ذاتی مفاد یا انتقامی اشتعال سے مغلوب ہو کر اپنے ہدف کو ہر قیمت پر تباہ کرنے پر تلا ہوتا ہے۔ وہ اپنے غصے کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کی ہلاکت کی مطلق پروا نہیں کرتا اور ان کا خون بہاتا رہتا ہے۔

ارضِ پاکستان میں یہ معمول بن چکا ہے۔ استعماری طاقتوں نے تخریبی ذہنیت رکھنے والے گروہوں کو اپنا آلۂ کار بنا رکھا ہے تا کہ ان کی خونی معاونت کے ذریعے ایٹمی طاقت رکھنے والے اس ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔ چین کے ساتھ جیسے ہی عظیم معاشی ترقی کے منصوبوں کا آغاز آج سے 10 سال پہلے سی پیک کی صورت میں ہوا تو استعماری طاقتوں اور اُن کی پروردہ دہشت گرد تنظیموں کو آگ سی لگ گئی۔ اُن کے مذموم ارادے اور گھناؤنی حرکتیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان کے عوام ان ہتھکنڈوں سے آگاہ ہیں، مگر وہ حیران ہیں کہ حکمران غفلت کی نیند سے کب جاگیں گے؟

وطنِ عزیز سے باہر اثاثے رکھنے، اور مالی مفاد استعماری طاقتوں سے وابستہ اور استوار کرنے کی خواہش کیا قوم سے غداری تک جا سکتی ہے؟ یہ سوال ہر وہ شہید پوچھ رہا ہے جو دہشت گردی کا شکار ہوا، اُس کے لواحقین پوچھ رہے ہیں اور عوام بھی۔

کیا بظاہر ہمدردی دکھانے، جائے حادثہ پر پہنچ جانے، ٹی وی پر اس 'فعالیت' کی تشہیر کرانے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جا سکتا ہے؟

کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان؟ کہاں ہے نیکٹا؟ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے کئے گئے اقدامات کہاں ہیں؟ 14 اگست 2016 کے فیصلوں کا کیا ہوا؟ اس اہم اجلاس میں دہشت گردی کے حتمی خاتمے کے لیے ایک عظیم پروگرام ترتیب دیا گیا تھا لیکن جب عمل درآمد کی باری آئی تو کبھی فنڈز کی عدم دستیابی تو کبھی اچھے لوگوں کی کمی کا بہانہ۔ ملک و قوم کے ساتھ یہ بھیانک مذاق کب تک جاری رہے گا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور افغانستان کے ساتھ بارڈر طویل اور غیر محفوظ ہے۔ اس کی نگرانی آسان کام نہیں، خاص طور پر جب افغانستان تعاون پر آمادہ نہ ہو۔ لیکن ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے لیکن انسدادِ دہشت گردی کے سویلین ادارے غیر فعال ہیں۔ مانا کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، مگر ردِعمل اتنا کمزور کیوں؟

کیا ہم ایک قوم کے طور پر اس ناسور سے نبرد آزما نہیں ہو سکتے؟ ٹی وی مناظروں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی سے اجتناب کرتے ہوئے کیا اس مسئلے پر یکجا اور یک زبان نہیں ہو سکتے؟ کیا میڈیا کی انتہائی فعالیت کے اس دور میں قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک جاندار بیانیہ نہیں دیا جا سکتا؟

یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ سانحہ پشاور سے لے کر آج تک سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ایک بھرپور لائحہ عمل نہیں بنا سکی، جس پر عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کو ظالم قاتلوں سے نجات دلائی جا سکتی۔

اُن کی مالی معاونت کرنے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے خفیہ چہروں کو بے نقاب کرنے میں کون سی مصلحت آڑے آتی ہے؟ کیا آج اس راز سے پردہ اٹھانے کا وقت نہیں آ گیا کہ یہ دہشت گرد جدید اسلحہ اور ٹریننگ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کے مالی وسائل کی سپلائی لائن ابھی بھی نہیں کاٹی جا سکتی؟ ہم کب تک تحفظات کا شکار رہیں گے؟ کیا پانی ابھی بھی سر سے نہیں گزرا؟ کیا انسانی وسائل، جوہری بم اور میزائل رکھنے والی یہ ریاست اس قدر مفلوج ہو چکی ہے کہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم کوئی کمزور یا لاچار ریاست نہیں ہیں۔ تمام دہشت گرد، فتنہ پرور اور فسادی تنظیمیں مل کر بھی پاکستان کی سلامتی کا بال بیکا نہیں کر سکتیں۔ اصل مسئلہ اربابِ اختیار کی ترجیحات کا ہے۔ ضروری ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ان عناصر کی بیخ کنی کا ارادہ کر لیں، ان کے مالی مدد گاروں اور سہولت کاروں کو بلاامتیاز کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور اس سلسلے میں کسی رعایت سے کام نہ لیا جائے۔ دہشت گردی اورجدید ریاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جس طرح ایک صحت مند جسم میں ناسور پلنا ایک عذاب ہے، اسی طرح معاشرے میں منفی سرگرمیوں کی حامل تنظیموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم، جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا، طاقت کے استعمال سے دہشت گرد کو ختم کیا جا سکتا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وسیع تر اقدامات درکار ہیں۔

ان میں سب سے ضروری اقدام عوام دوست جمہوری حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔ تمام شہریوں کے لیے معاشی اور سماجی انصاف اور یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان عوامل کی غیر موجودگی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواریاں دہشت گردی کو ہوا دیتی ہیں۔ دہشت گرد ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

معاشرے میں بگاڑ کا آغاز گھر سے ہوتا ہے جب والدین رزقِ حلال کے بجائے بچوں کو رشوت والی نوکریاں کرنے کی شہ دیتے ہیں اور اس میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ دہشت گردی وہاں جنم لیتی ہے اور پھیلتی ہے جہاں اخلاقی اقدار پامال ہوتی ہیں اور معاشی انصاف ناپید ہوتا ہے۔

موجودہ صورتِ حال ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم سب کو مل کر اس ناسور کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ہماری اجتماعی زندگی یا موت کا مسئلہ ہے۔ اسے صرف میٹنگز یا بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہئیے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔