ہاکی کے میدان سے زندان تک کا سفر: ایک لاپتہ کھلاڑی کی داستان

ہاکی کے میدان سے زندان تک کا سفر: ایک لاپتہ کھلاڑی کی داستان
کراچی: کڑکتی دھوپ میں کراچی کے علاقے رضویہ سوسائٹی میں قائم فلیٹ کے باہر صبیحہ جعفر کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ ضعیف العمر ہیں لیکن انکو آنے والا کا اتنا انتظار ہے کہ وہ اس کی راہ تکنے کے لئے اپنا ابایا سر تا پیر لپیٹے گرمی کی صعوبت برداشت کر رہی ہیں۔

راقم السطور کو دیکھ کر وہ فوراً اپنے گھر کا دروازہ کھول کر اندر آنے کا اشارہ کرتی ہیں۔ انکی آنکھ میں چمک بھی ہے اور آنسو بھی۔ ان چند دقیقوں کا انتظار کچھ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ ایک عرصے سے اپنے چونتیس سالہ بیٹے کی راہ تک رہی ہیں۔



صبیحہ جعفر کا جوان سالہ بیٹا علی مہدی چار سال سے لاپتہ ہے۔ چار سال کہنا آسان ہوتا ہے لیکن اس کی اذیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے بیٹے کا انتظار کرتے کرتے علی مہدی کے والد اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ صبیحہ صاحبہ کا غم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کو بھی ان مصائب میں کھو دیا اور اب انکا بیٹا بھی واپس نہیں لوٹا۔

12 مارچ 2018 کی صبح قریب پونے 4 بجے انکے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ سوال کرنے پر آنے والوں نے بتایا کہ وہ الیکشن کی لسٹ تیار کرنے آئے ہیں۔ جیسے ہی دروازہ کھولا گیا تو 15 سے 20 ریجرز اہلکار اندر داخل ہوئے اور گھر میں موجود سب افراد سے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ علی مہدی کو دیکھ کر ریجرز نے انہیں اپنے ہمراہ لے جانے کا کہا۔ ماں بہت روئی اور سوال اٹھائے لیکن وہ زبردستی علی مہدی کو یہ کہہ کر لے گئے کہ کچھ ہی منٹوں میں انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ علی مہدی کے بچے اب اسکول جاتے ہیں لیکن انکے والد ان منٹوں کے بعد کبھی واپس لوٹ کر نہیں آئے، نہ ہی انکی کبھی کوئی کال آئی۔



صبیحہ جعفر نے بتایا کہ ’ایف آئی آر تک کٹوانے کے لئےہم نے مشکلات کا سامنا کیا۔ کیونکہ پولیس نے رینجرز کے خلاف مقدمہ درج کرنے سےصاف انکار کردیا تھا۔ اور پھر ہائی کورٹ سے احکامات کے بعد ہی آیف آئی آر کٹی۔ اب ہر ماہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں مگر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پولیس تو پھر بھی بات سن لیتی ہے لیکن ریجرز کا وکیل ہمارا مزاق اڑاتا ہے، ہمیں ڈراتا دھمکاتا ہے اور ہمیں بات بھی کرنے نہیں دیتا۔‘

صبیحہ جعفر نے اپنےبیٹے کی بازیابی کے لئیے مہنگے سے مہنگے وکیل کئے اور اس سب کے دوران جو بھی مال اسباب تھا اسکو داؤپر لگا دیا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ پہلے ایک بڑے گھر میں رہتی تھیں، کئی سوارایاں گھر کے باہر کھڑی ہوتی تھیں لیکن آج انکا سب کچھ بیٹے کی بازیابی کے لئے غرق ہوگیا اور بیٹا بھی واپس نہیں آیا۔



صبیحہ جعفر کے مطابق انکے شوہر جن کی عرفیت شہنشاہ تھی ہاکی کھیل کے شوقین تھے اور حبیب پبلک اسکول میں ایڈمنسٹریشن کے فرائص سر انجام دیتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہاکی کے مشہور کھلاڑی سہیل عباس سے وہ بہت قریب تھے اور انکو بھی ہاکی سکھایا کرتے تھے۔ انہی کی بدولت علی مہدی بھی ہاکی میں اپنا نام بنا رہے تھے۔

’میرے بیٹے نے ہمیشہ یہی سوچا کہ وہ پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ وہ زمانہ طالبِ علمی سے قومی کھیل ہاکی کا بہت شوقین تھا۔ حبیب پبلک اسکول میں پڑھتا تھا جو ہاکی کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ بھارت، دبئی اور مختلف جگہ جا کر اس نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ کراچی الیکٹرک کی ٹیم میں شامل ہوا اور پھر وہیں نوکری جاری رکھی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ قوم و ملک کے لئے کھیلنے کے بعد اسے یہ تکلیف اٹھانا پڑے گی کہ چار سال ہوگئے اور وہ اب تلک قید میں ہے۔‘

گزشتہ سال ماہ رمضان میں شیعہ لاپتہ افراد کے خانوادوں نے 20 روز سے زائد کراچی کے علاقے نمائش پر دھرنا دیا جس کا ثمر یہ نکلا کہ ایک فرد واپس گھر لوٹ کر آیا۔ لیکن باقی درجن سے زائد افراد اب تک گمشدہ ہیں۔



’ہماری آواز کو دبایا جاتا ہے۔ کبھی میڈیا میں نہیں آنے دیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ اپریل کے اوائل میں ہم نے عزاخانہ زہرا سولجر بازار، کراچی میں پریس کانفرنس کا فیصلہ کیا لیکن جب وہاں پہنچے تو رینجرز کی بھاری نفری نے ہمیں کانفرس کرنے سے روک دیا۔ کیا یہ وہی ملک ہے جو ہمارے بزرگوں نے بنایا تھا؟ ہم کہاں جائیں؟ اپنے بچوں کی بازیابی کس سے مانگیں؟ ہم اپنے بیٹے کے لئیے اپنا سر بھی کٹانے کے لئیے تیار ہیں۔‘

صبیحہ جعفر کو اب ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں انکی دختر اور دیگر بیٹوں کو بھی ریاستی ادارے نقصان پہچانے کی کوشش نہ کریں۔ انکا کہنا تھا کہ انکے بیٹے کی گمشدگی کے بعد وہ بہت اکیلی پڑ گئیں ہیں کیونکہ علی مہدی انکے سب سے زیادہ فرمانبردار صاحب زادے تھے جو نماز روزے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔



’مجھے یاد ہے کہ ایک بار علی مہدی اپنے والد کے ساتھ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے گئے۔ گاڑی میں میرے شوہر بیٹھے تھے۔ جب علی مہدی اے ٹی ایم سے باہر نکلے تو کچھ ڈاکو آگئے اور انہوں نے بندوق انکی کنپٹی پر رکھ دی۔ یہ دیکھ کر علی مہدی نے صرف اتنا کہا کہ بس میرے اوپر سے یہ بندوق ہٹا دو کیونکہ میرے والد نے دیکھا تو وہ یہ برداشت نہین کر پائیں گے اور مجھ سے جو لینا ہے لے لو۔ علی کو اپنے والد کی اس قدر فکر رہتی تھی۔ اسکو کیا معلوم کے وہ اسکا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ آخری وقت میں علی مہدی کے والد جب بسترِ مرگ پر تھے تو جیسے ہی دروازے پر کوئی دستک ہوتی تو وہ اپنی اہلیہ سے کہتے کہ ’دیکھو میرا بیٹا واپس آگیا‘۔

ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات دن با دن بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا اعادہ کیا تھا اور ایک بل بھی اسمبلی میں پیش ہوا۔ مگر انسانی حقوق کی عزیر شیریں مزاری صاحبہ کے مطابق یہ بل خوف کہیں لا پتہ ہوگیا۔



قابل ذکر ہے کہ اس بل میں ترمیم کرتے ہوئے ایک شق یہ بھی ڈالی گئی کہ اگر کوئی فرد ریاست پر لاپتہ کرنے کا جھوٹا الزام لگائے گا تو اس کی سزا میں پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔

کیا علی مہدی اور ان جیسے دسیوں افراد کبھی اپنے گھر واپس لوٹیں گے؟
یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔

مصنف صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔