تحریر: (کوثر عباس علوی) یہ حقیقت بہرحال سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ جب فرعون اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے بنی اسرائیل کے سب بچے قتل کرا رہا تھا تو عین اسی وقت موسیٰ اسی کے محل میں پرورش پارہے تھے۔
احتساب اور سباب میں چنداں فرق نہیں رہتا اگر احتساب کی رتھ قانون کی بجائے خواہش کے کاغذی گھوڑے کے ناتواں کندھوں پر رکھی ہو اور رتھ کھینچنے والے گھوڑے کی آنکھوں پر ”کھوپے“ رکھ کر اسے گردوپیش سے بے خبر کر کے صرف سامنے کا ”راستہ“ دیکھنے پر مجبور کر دیا جائے۔ سوال اٹھانا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور قدرت نے ازل سے اسے انسان کی فطرت کا جزولاینفک بنایا ہے۔ شیطان، حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سوال اٹھایا ”جب میں نے تمہیں حکم دیا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو انکار کیوں کیا؟“ کچھ لوگ مخمل کے حسین پردوں پر اقتدار کی گردشوں میں محو طواف ارباب اقتدار کا یہ قول زریں ستاروں کی صورت کڑھائی کرا کر انہیں لہراتے پھرتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں پہلی بار احتساب کا چشمہ پھوٹا ہے اور اب وطن عزیز کے ریگزار بھی باغ ارم کا منظر پیش کرنے کو ہیں۔ ان کا ارشاد بجا لیکن سوال تو پھر بھی اٹھتا ہے کہ ”پانی اپنی سطح ہمواررکھتا ہے لیکن یہاں تو چراغ رخ زیبا لے کر بھی شاید یہ دلفزا نظارہ دیکھنے کو نہ ملے“۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس چشمہ آب ”احتساب“ کا رخ تاباں صرف نشیبی علاقوں کی طرف ہو اور ”بالائی علاقے“ ہنوز اس کی پہنچ سے کوسوں دور ہوں؟
سوال اٹھانا غداری ہوتا ہے اور نہ ہی سائل کی نیت پر شک کرنا حوصلہ افزا رویہ، ریاست مدینہ میں تو فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ والی ریاست کو کسی بڑھیا نے اشارے سے بلایا اور عرب کے ریگستان کی کڑکتی دھوپ میں کھڑا کر کے باتیں سنائیں لیکن مجال ہے جو تاریخ کے اس صادق و امین حکمران کے ماتھے پر شکن پیدا ہوئی ہو۔ ٹھہرے پانی میں پلچل مچانے کے لیے ایک ہی کنکر پھینکنا کافی ہوتا ہے یہاں تو بے یقینی کا ایک جنگل ہے جس میں سوالات کے اژدہے”اگر مگر لیکن کیوں کیسے“ جیسے پھن پھیلائے سوچ کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں لیکن جواب کا عصا اتنا کمزور کہ سوال کی چوٹ سے ٹوٹا ہی چاہتا ہے۔
اگر ایک طرف پشاور میٹرو کے دیوتا کے حضور 100 ارب سے زائد کے چڑھاوے چڑھائے جا چکے ہوں لیکن تعبیر کی برکھا ابھی تک برسنے سے شرمندہ، احتساب کا دولہا اپنی دلہن ”بلین ٹری“ کے رخ سے گھونگھٹ سرکانے سے کترا رہا ہو، ہیلی کاپٹر کیس ابھی تک فضا میں ہو اور کسی کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچ پا رہا ہو لیکن اپوزیشن مکھی مارنے کے جرم میں بھی پکڑی جا رہی ہو تو آہنی دیواربھی سوال کے سیل رواں کو روکنے سے قاصرہی رہے گی۔ اگر ایک طرف بابر اعوان کو آزادی کا پروانہ دیا جا رہا ہو اور دوسری طرف قمر الاسلام مہینوں جیل کاٹ کر بے گناہی کا کتبہ اٹھا کر رہا ہو رہا ہو تو سوال تو پیدا ہوں گے۔ اگر ایک طرف فردوس عاشق اعوان پر بنے کیس مٹھی سے ریت کی مانند پھسلتے جا رہے ہوں اور دوسری طرف شاہد خاقان عباسی دیوار سے لگایا جا رہا ہو تو سوال کو کسی بھی زہر سے مارا نہیں جاسکتا۔ اگر ایک طرف زبیدہ جلال کے کیس پارٹی وابستگی کی آتش میں جلا، خاک بنا کر پھونک مار کر ہوا میں اڑائے جارہے ہوں اور دوسری طرف مفتاح اسماعیل اور احد چیمہ کو احتساب کی سیخوں پر چڑھا کر ہلکی ہلکی آنچ پر تلا جارہا ہو تو سوال اپنی پیدائش کے لیے کسی ازدواجی بندھن سے ماورا ہوجاتے ہیں۔ اگر ایک طرف فہمیدہ مرزا کو پاکدامنی کے سرٹفکیٹ عطا کیے جا رہے ہوں لیکن دوسری طرف مریم نواز کو ایسے کیس میں پابند سلاسل کیا جارہا ہو جو اپنی مضبوطی میں مکڑی کے جالے کو بھی شرماتا ہو تو دنیا کی کوئی بھی احتیاط سوال کو”پیدا“ ہونے سے نہیں روک سکتی۔
یہ انصاف نہیں کہ خود ہی سوال کا موقع دو اور پھر خود ہی سائل پر پابندیاں لگاو، مریم نواز کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہم نے مانا کہ مریم نواز شریف کی گرفتاری احتساب کے سفر میں ایک سنگ میل ہے لیکن اس آشیانے کو تو ایک مضبوط شاخ چاہیے تھی تاکہ کوئی ناگ اس عمل صالحہ کے انڈے بچے نہ کھاتا۔ لیکن افسوس! بزعم خویش اس کارنمایاں کے تن نازک کو شک کے گردوغبار میں لپیٹ دیا گیا؟ وہ الزام جس پر ہائی کورٹ ایک تاریخی فیصلہ بھی دے چکی اور اپیل دائر کرنے کی مدت بھی گزر چکی، اسی الزام پر گرفتاری ایک ایسی چنگاری ہے جو خرمن کو جلانے کے لیے کافی ہے۔ نیب کا حکمنامہ نمبر 1 (9) HQ/2023/IW-II/NAB-l میں واضح مندرج ہے کہ مریم نواز شریف کو تین بجے نیب لاہور کے حضور پیش ہونا ہے۔ وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے وہ ایک بجے اپنے والد سے ملاقات کے لیے جیل پہنچیں لیکن کمال کی بات ہے کہ ان سے پہلے وہاں نیب کی ٹیم پہنچی ہوئی تھی، انہیں وہیں اپنے والد کے سامنے گرفتار کر لیا گیا۔ سوال تو پیدا ہوگا کہ بلانے والے خود چل کر جیل میں کیسے وارد ہوگئے؟ بغیر کسی سوال جواب کے عدالت کے احاطے کی بجائے جیل سے کیوں گرفتار کیا گیا؟ وقت تین بجے کا طے تھا تو ایسی بھی کیا عجلت تھی کہ تین دو گھنٹے مزید صبر نہ ہوسکا؟ اگر گرفتار ہی کرنا تھا باپ کے سامنے ہی کیوں کیا گیا؟ اگر نئے پاکستان میں ملزموں کو نشان عبرت بنانا ہی مقصود تھا تو بیچ چوراہے، پر ہجوم شاہراہ اور لوگوں کے جم غفیر سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی اور جگہ ہوسکتی تھی؟ سوال تو پیدا ہوگا کہ گرفتاری کا وقت اور جگہ دونوں کو صرف اس لیے تو تبدیل نہیں کیا گیا کہ کسی کو ذلیل کرنا اور اس کے اعصاب توڑنا مقصود تھا یا کسی کی انا کی تسکین؟
مریم نواز نے 15 اگست کو مظفرآباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک ریلی کا اعلان کیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ احتساب کا عمل بے شک شفاف ہوگا لیکن ان کی گرفتاری کا عمل اور جلد بازی، ان کی سابقہ ریلیوں کا بلیک آؤٹ، جلسوں والی جگہوں پر پانی چھوڑنا، جلسہ گاہوں کو تالے لگانا، اپیل کی مدت گزرنے کے بعد اپیل دائر کرنا جبکہ اسی بنیاد پر کئی ایک مقدمات داخل دفتر کیے جاچکے ہوں، تین بجے سوالات کی بجائے ایک بجے گرفتاری ڈالنا، بلانے والوں کا خود جیل پہنچ جانا اور وہ بھی مریم نواز کے جیل پہنچنے سے پہلے اور اس جیسے دیگر اقدامات شکوک و شبہات پھیلانے اور پٹواریوں کو یہ کہنے کے لیے کافی ہیں کہ مریم نواز کے جلسے کاخ امراء کی دیواروں کو لرزانے اور والیاں ریاست کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی تھے اس لیے انہیں گرفتار کرنے میں جلدبازی کی گئی۔