سی ڈی اے بحریہ انکلیو سے 510 کنال سرکاری اراضی واگزار کرانے میں ناکام

اسلام آباد: اسلام آباد کا وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) سپریم کورٹ آف پاکستان کی سخت ہدایات کے باوجود بحریہ انکلیو سے پانچ سو دس کنال سرکاری زمین واگزار کرنے میں ناکام ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سی ڈی اے کو سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں، جس کے مطابق بحریہ ٹاؤن، بحریہ انکلیو اور دیگر ہاوسنگ سوسائٹیز سے سرکاری اور غیر قانونی زمین واگزار کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

سی ڈی اے کے ہاوسنگ سوسائٹیز ونگ سے وابستہ ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیادور میڈیا کو بتایا کہ ملک ریاض کے بحریہ ٹاوٗن سے پانچ سو دس کنال سرکاری زمین واپس واگزار کرنے کے لئے کئی بار کوشش   کی گئی مگر ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے گزشتہ سال اکتوبر میں بحریہ انکلیو میں سرکاری اور غیر قانونی زمین کی نشاندہی کے لئے دیگر محکموں کے ساتھ مل کر زمین کی پیمائش کی تھی اس پیمائش کے مطابق بحریہ انکلیو نے پانچ سو دس کنال سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر گزشتہ سال دسمبر میں دو بار آپریشن کرنے کی کوشش کی گئی مگر بحریہ انکلیو کے ذمہ داران نے سی ڈی اے کی ٹیموں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور غیر قانونی تعمیرات خود گرانے کا وعدہ کیا مگر بعد میں آپریشن منسوخ کر دیا گیا۔

سی ڈی اے کے ریکارڈ کے مطابق بحریہ انکلیو نے سرکار کی زمین پر سات رہائشی گھر، دو کمرشل بلڈنگز، ایک ریسٹورنٹ جبکہ ایک چڑیا گھر تعمیر کیا ہے مگر سی ڈی اے حکام کے مطابق یہ تمام عمارتیں تاحال اپنی جگہ موجود ہیں اور ہم نے ان کے خلاف دو بار آپریشن کرنے کی کوشش کی مگر بااثر افراد کی جانب سے کالز آنے کے بعد ان کو منسوخ کیا گیا۔

اس وقت کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی نے بحریہ انکلیو کے سامنے میڈیا سے گفتگو کرکے دعوی کیا تھا کہ آج ہم نے بحریہ انکلیو اور دیگر رہائشی سکیموں سے ہزاروں کنال زمین واگزار کی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا مگر سی ڈی اے کے ریکارڈ کے مطابق بحریہ انکلیو کے پاس غیر قانونی طور پر پانچ سو دس کنال سرکاری زمین ہے۔ سی ڈی اے کے ایک افیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی کو ہم نے بریف کیا تھا کہ بحریہ انکلیو کے پاس صرف پانچ سو دس کنال کی غیر قانونی زمین ہے مگر انھوں نے جان بوجھ کر ان کو ہزاروں کنال میں تبدیل کیا جبکہ انھوں نے بعد میں ملک ریاض کے بحریہ انکلیو سے زمین واپس واگزار کرنے کے لئے کوئی تعاون نہیں کیا۔

سی ڈی اے کے ایک اور ذمہ دار آفسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ کچھ مہینے پہلے سرکاری زمین کی نشاندہی کے لئے ہم نے وہاں نشاندہی کے سائن لگا دئیے مگر بحریہ انکلیو کی انتظامیہ نے ان سائنز کو اگلے دن ہٹا دیا تھا مگر تاحال ہم نے کوئی کاروائی نہیں کی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ بحریہ انکلیو کے مالک ملک ریاض نے سی ڈی اے کے دفتر آ کر ادارے کو 410 کنال زمین خریدنے کی آفر کی تھی مگر اس وقت سی ڈی اے کے چئیرمین افضل لطیف نے انکار کر دیا تھا اور آپریشن کرنے پر بضد تھے جس کے بعد ان کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر چئیرمین سی ڈی اے کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، بعدازں بحریہ انکلیو کے خلاف سی ڈی اے کے موجودہ چئیرمین اور کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے کوئی کاروائی نہیں کی اور بحریہ انکلیو تاحال سرکاری زمین پر قابض ہے

۔
نیا دور میڈیا نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کے وزیر شہریار آفریدی اور چئیرمین سی ڈی اے عامر علی احمد سے موقف لینے کی کوشش کی مگر دونوں کی جانب سے موقف سامنے نہیں آیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔