محکمہ اوقاف کی زمین پر ایلیٹ فورس کے قبضے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کہا ہے کہ درخواست گزار پولیس کی بات کر رہے ہیں یہاں آرمی نے ہائیکورٹ کی 50 کنال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس قاسم خان نے لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو آرمی چیف کو خط لکھنے کا حکم دے دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے فوج سب سے بڑا قبضہ گروپ بن گئی ہے، کل کور کمانڈر اور ڈی ایچ اے کے سربراہ کو بلا لیتا ہوں۔ یہ معاملہ رسہ گیری کی قسم ہے، فوج کا کام قبضہ گیری ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے منہ سے فوج سے متعلق جملہ غلط نہیں نکلا، اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سچ بلوایا، آرمی کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنا رسہ گیری کی ایک قسم ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ اراضی سے متعلق مخالف فریق کا تعلق آرمی سے ہے اور وہاں سے جواب نہیں آتا اس پر چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ مجھے بطور جج11سال ہوگئے ہیں کسی کی جرات نہیں کہ آج تک مجھے جواب نہ جمع کروائے، مجھے جواب منگوانا آتا ہے اور یہ صرف دو دن کا کام ہے۔ معزز چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے بریگیڈیئر ستی کو فوری طلب کر لیا۔ چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ بریگیڈیئر ستی اپنے اسٹار اتار کر آئیں۔ اس بریگیڈیئر کو یہیں سے جیل بھجواؤں گا۔
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ بریگیڈیئر ستی اسلام آباد سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ جس پر چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ کل دوبارہ عدالت لگے گی جتنی کوٹھیاں قبضے کی زمین پر بنی ہیں سب گرانے کا حکم دوں گا، اس بریگیڈیئر کو کہہ دیں کہ صبح ریکارڈ لے کر آجائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ آرمی والے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنا چھوڑ دیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سی سی پی لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی ایچ اے نے اندھیر نگری مچائی ہوئی اگر ان سے ڈرنا ہے تو نوکری چھوڑ دیں۔ صرف آرمی کے لوگ اقتدار پر قابض رہے ہیں، اپنی مرضی کے قانون بناتے رہے ہیں اس لیے ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جسٹس قاسم خان نے ڈی ایچ اے انتظامیہ کی خلاف ہر آنے والی درخواست پر سی سی پی او لاہور کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ڈی ایچ اے والے پراپرٹی پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ آرمی کی وردی پہننے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کریں، جب دل کرتا ہے چار سپاہیوں کو لے جا کر اراضی پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ریٹائرڈ افسران کے لیے زیادہ ویلفیئر ہے پولیس کے لیے کیوں نہیں؟ کیا آرمی کے ساتھ پولیس ،ججز ،وکلا اور دیگر اداروں کی قربانیاں نہیں ہیں؟
چیف جسٹس نے دہرایا کہ آرمی ایسا ادارہ جس نے ہائیکورٹ کی 50کنال کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ کے خلاف رجسٹرار کی مدعیت پر مقدمہ درج کریں جتنے بڑے ہیں قانون سب کے لیے برابر ہے، وردی والے کرائم کرکے بچ نہیں سکتے چاہے پولیس کی وردی میں ہوں یا فوج کی وردی میں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کمشنر اور ڈی سی لاہور کو کل طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 11سال بطور جج فرائض سر انجام دیے کبھی ڈر کے فیصلہ نہیں کیا، عزت کے لیے یہاں بیٹھا ہوں۔ اس ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔ اس پر ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ آرڈر کی کاپی مل جائے تو بہتر ہوگا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ اس کو آرڈر ہی سمجھیں آپ بچے نہیں ہیں۔