لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے رجسٹرار دفتر کو ہدایت کی ہے کہ 2016 میں 50 کینال عدالتی زمین ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ( ڈی ایچ اے) کو دیے جانے سے متعلق تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک خط سے متعلق کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ملکیت رہنے والی زمین چیف جسٹس کے حکم پر کسی کو بھی فراہم نہیں کی جا سکتی بلکہ اس ضمن میں سات رکنی ایڈمنسٹریشن کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کیس کی گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اتھارٹی نے نہ صرف عام لوگوں کی زمین پر قبضہ کیا بلکہ اس نے عدالتی زمین کو بھی ہتھیا لیا۔ چیف جسٹس نے مذکورہ سماعت کے اگلے روز ڈی ایچ اے کے وکیل عامر سعید رضوان کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کا بھی نوٹس لیا تھا، جس میں انہوں نے ڈی ایچ اے کی جانب سے عدالتی زمین پر قبضے کے ریمارکس کی نفی کی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا خط لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے 2016 میں لاہور کے ضلعی روابط دفتر کو لکھا گیا تھا، جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ موزہ سنگت پورہ میں موجود لاہور ہائی کورٹ کی 50 کینال کی اراضی ڈی ایچ اے کو دی جائے جب کہ موزہ پھلارون کے علاقے میں موجود 65 کینال کی زمین عدالت کو الاٹ کی جائے۔
اراضی کیس کی 20 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر عدلیہ کے خلاف جاری مہم سے متعلق کوئی ایکشن نہیں لیا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر اسی طرح اداروں کے خلاف تضحیک کی کارروائیاں جاری رہیں تو یہاں جنگل کا قانون بن جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کا عدلیہ سے یقین اٹھ گیا تو وہ کورٹس میں آنے کے بجائے اپنے حق لینے کے لیے ہتھیار اٹھا لیں گے۔
دوران سماعت ڈی ایچ اے کے وکیل نے مفصل جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے مزید مہلت مانگ لی، جس کے بعد چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔