Get Alerts

صابر 'مٹھو' نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی، امیر حسین بھٹی سے علی ساہی کو بہت فائدہ ہوا، سابق جسٹس لاہور ہائی کورٹ شاہد جمیل

'میں نے وکیل کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔ میں نے کہا تمہیں کبھی لگا ہے کہ مجھ پر اس طرح اثر انداز ہوا جا سکتا ہے؟ اس نے معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔ پھر بتایا کہ میں نے مٹھو صاحب کو منع کیا تھا کہ وہ آپ کو ایسا کوئی پیغام نہ بھیجیں لیکن پھر ان کے پاس ایک چینی کا ٹائیکون آ گیا اور اس نے سفارش کی تو انہوں نے آپ کو پیغام بھیج دیا'

شاہد جمیل اعزاز سید

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) شاہد جمیل نے ایک تہلکہ خیز انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر حسین بھٹی نے نظر آتا ہے کہ چیزوں کو اس طرح سے رکھا جس نے ان کے داماد علی افضل ساہی کو فائدہ پہنچایا جو کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔

یوٹیوب چینل ٹاک شاک پر اعزاز سید سے بات کرتے ہوئے شاہد جمیل خان نے کہا کہ اس زمانے میں کیسز بھی مخصوص بنچز کے سامنے لگتے تھے۔ "یہ بات میں یہاں میڈیا پر نہیں کہہ رہا، میں نے ججز کے درمیان بیٹھ کر ایک چائے پر بھی یہ بات امیر بھٹی صاحب کے منہ پر کہی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کے داماد کے بارے میں بات ہوتی ہے، ہو سکتا ہے آپ کو فرق نہ پڑتا ہو لیکن مجھے فرق پڑتا ہے۔ میں نے یا میرے بیٹے نے کچھ کیا ہے، تو میرے خلاف 209 کی کارروائی شروع کریں۔ میرے بیٹے کے خلاف FIR کروائیں۔ لیکن ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو میں اجازت نہیں دوں گا کہ میڈیا میرا نام کسی وجہ سے لے اور میرے رشتہ داروں اور دوستوں کو وہ فارورڈ ہو اور وہ سب منہ چھپاتے پھریں"۔

اپنے تفصیلی انٹرویو میں جسٹس (ر) شاہد جمیل نے لاہور ہائی کورٹ میں گزرے اپنے قریب دس سالوں کے درمیان اپنے تجربات پر روشنی ڈالی اور انہوں نے اپنے سابق چیف جسٹس صاحبان سے متعلق بھی مختلف انداز میں روشنی ڈالی۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب کا مرشد علی افضل ساہی!

اس سوال پر کہ امیر حسین بھٹی صاحب پر رشوت کے الزامات بھی رہے ہیں، شاہد جمیل نے کہا کہ میں نے بھی سنا، میرے پاس بھی وہی اطلاعات ہیں جو میڈیا کے پاس بھی ہیں لیکن یہ باتیں ہم نے محمد خان بھٹی کی لیک شدہ ویڈیو میں ہی سنی ہیں۔

محمد خان بھٹی کی ویڈیو لیک میں اپنے نام کے ذکر پر شاہد جمیل نے کہا کہ میں 2008 میں ق لیگ کی حکومت ختم ہوئی اور ن لیگ کی حکومت آئی تو محمد خان بھٹی اس وقت سیکرٹری پنجاب اسمبلی تھے جنہیں برخاست کر دیا گیا۔ میں اس کیس میں سپیکر کا وکیل تھا۔ ہائی کورٹ سے فیصلہ میرے حق میں آیا لیکن پھر عبدالحمید ڈوگر صاحب کی عدالت نے سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ الٹ دیا۔ یہ میرا ان سے پہلا ٹاکرا تھا اور میں اس کا مخالف وکیل تھا لیکن محمد خان بھٹی ہمیشہ بڑی عزت سے ملتا تھا۔ بعد ازاں جب میں جج بن کر GOR میں شفٹ ہوا تو یہ بھی وہیں رہتا تھا، ان کا بیٹا میرے بیٹے کا کلاس فیلو بھی تھا۔ اپنی پوری کہانی سنانے کے بعد جب ویڈیو لیک میں اس سے سوال ہوا کہ اور کس جج سے تعلق تھا تو انہوں نے میرا اور شاہد کریم کا نام لیا۔

"میں اور شاہد کریم لاہور ہائی کورٹ میں حکومت کو بہت ٹف ٹائم دیتے تھے۔ فیصلہ کرتے ہوئے وہ بھی نہیں گھبراتا تھا، وہ تو ابھی بھی یہ کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور میں بھی نہیں گھبراتا تھا۔ شاید اسی لئے انہوں ںے ہمارا نام لیا۔ میں نے اگلے ہی دن چیف جسٹس امیر حسین بھٹی کو کہا کہ یا تو اس کیس کو آپ خود اٹھائیں یا پھر میں اس کو کسی کیس میں take up کر لوں گا۔ یا پھر میں استعفا دے دوں گا۔ انہوں نے کہا ہم اسے AC میں لے کر جائیں گے۔ بعد میں انہوں نے مجھے کہا کہ عمر عطا بندیال صاحب نے اس پر کہا ہے کہ کوئی کارروائی نہ کریں۔ میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سوال بندیال صاحب سے کیا تو انہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا"۔

یہ بھی پڑھیے: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اختلافات جسٹس شاہد جمیل کے استعفیٰ کی وجہ بنے؟

جسٹس باقر نجفی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی کیس آ جاتا تھا تو سوائے شہزاد گھیبا صاحب کے ہر جج بشمول امیر حسین بھٹی کے، ہر بار یہ کیس نجفی صاحب کے سامنے لگاتا تھا۔

صابر مٹھو نے چینی کیس میں مداخلت کی کوشش کی

جسٹس (ر) شاہد جمیل نے بتایا کہ جنرل باجوہ کے سمدھی صابر مٹھو صاحب کے والد اور میرے والد آپس میں فرسٹ کزن تھے۔ وکالت میں آنے کے بعد میری مٹھو سے اتنی ملاقات نہیں رہی۔ "جب میں جج کنفرم ہو گیا تو یہ پہلی بار میرے پاس مٹھائی لے کر آیا۔ میرے ساتھ میرا بیٹا بیٹھا تھا جو کہ خود بھی بیرسٹر ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ میرے والد صاحب کے جنازے پر بھی نہیں آیا تھا تو اب اس کا فون آیا ہے کہ میں مبارکباد دینے آنا چاہتا ہوں۔ ابھی باجوہ صاحب چیف نہیں بنے تھے۔ راحیل شریف صاحب جا رہے تھے۔ مٹھو نے مجھے بتایا کہ ہماری بات ہو گئی ہے، جنرل باجوہ آرمی چیف بننے جا رہے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے جاتے ہوئے کوئی سفارش بھی بتا دی کہ وہ آپ کے سامنے کیس لگا ہوا ہے۔ میں نے نہ سفارش سنی، نہ کیس پوچھا کون سا ہے۔ پھر باجوہ صاحب آرمی چیف بن گئے۔ ان کے بیٹے کی شادی پر مٹھو نے میری ملاقات جنرل باجوہ سے کروائی کہ یہ میرے کزن ہیں، ہائی کورٹ کے جج ہیں۔"

"پھر انہوں نے مجھے ایک بار پھر پیغام بھیجا کہ میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا میں اللہ کا شکر ہے ہائی کورٹ کا جج ہوں، آپ میرے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ اب تو مجھے صدر تو نہیں لگوا سکتا نا۔ اللہ کا بہت کرم ہے۔ اس سے زیادہ کیا مجھے چاہیے ہو سکتا ہے؟ پھر انہوں نے کچھ کیسز کے حوالے سے مجھے پیغامات بھیجنا شروع کر دیے تو میں نے اسے تھوڑا سا سخت پیغام بھیجا جس کے بعد پیغامات کا سلسلہ رک گیا۔"

شاہد جمیل نے بتایا کہ جب چینی کے کیسز میرے سامنے لگے تو مجھے میرے بھائی نے بتایا کہ صابر کا فون آیا تھا اور اس نے پیغام دیا ہے کہ جو وکیل صاحب شوگر والوں کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں، آپ انہیں بڑا ٹف ٹائم دے رہے ہیں تو تھوڑا ہاتھ ہولا رکھیں۔

یہ بھی پڑھیے: 'جنرل باجوہ چاہتے تو 12 سو ارب سے زائد کے اثاثے بنا سکتے تھے'

"میں نے وکیل کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔ میں نے کہا تمہیں کبھی لگا ہے کہ مجھ پر اس طرح اثر انداز ہوا جا سکتا ہے؟ اس نے معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔ پھر بتایا کہ میں نے مٹھو صاحب کو منع کیا تھا کہ وہ آپ کو ایسا کوئی پیغام نہ بھیجیں لیکن پھر ان کے پاس ایک چینی کا ٹائیکون آ گیا اور اس نے سفارش کی تو انہوں نے آپ کو پیغام بھیج دیا۔ پھر ایک دن میں اپنی والدہ سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کو بھی ایک رشتہ دار نے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ شاہد صاحب سے کہیں تھوڑا ہاتھ ہولا رکھیں۔"

جسٹس (ر) شاہد جمیل نے اپنے سابق چیف جسٹس صاحبان کے بارے میں بھی رائے دی جن میں سے امیر حسین بھٹی کے علاوہ جسٹس قاسم خان اور رانا شمیم کے بارے میں کھل کر رائے دی کہ یہ بہت ہی approachable جج حضرات تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کی نامزد چیف جسٹس عالیہ نیلم کے بارے میں رائے دیتے ہوئے شاہد جمیل نے کہا کہ ان کو قطعاً approach نہیں کیا جا سکتا اور یہ وکلا کے لئے بھی بہت مشکل ہوگا کہ وہ ان پر اثر انداز ہو سکیں۔

سابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بندیال صاحب ہی نے ان کو لاہور ہائی کورٹ کے لئے نامزد کیا تھا۔ اعزاز سید نے ان سے پوچھا کہ بندیال صاحب پر یہ الزام درست ہے کہ وہ PTI کے بہت قریب تھے؟ جس پر شاہد جمیل نے کہا کہ یہ ایک غلط روش قائم ہو گئی ہے کہ جو بھی فیصلہ آئے، اس پر جج کے خلاف مہم شروع کر دی جائے۔ بندیال صاحب کو اگر آپ PTI کا حامی جج کہتے ہیں تو پھر ان کا سب سے بڑا فیصلہ تو وہ تھا جس نے تحریکِ عدم اعتماد پر رائے زنی یقینی بنائی۔ تحریکِ انصاف نے بھی ان پر تنقید کی لیکن اس وقت انہوں نے رات 12 بجے عدالت کھول کر ایکشن لیا۔