تخت پنجاب کی لڑائی جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوں گے کہ نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن آج کل تخت پنجاب کی اس لڑائی میں پنجاب کے نئے مرشد کا بہت چرچا ہے۔ پہلی مرتبہ رکن پنجاب سمبلی بننے والے نوجوان علی افضل ساہی کو پنجاب میں مرشد کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ بیک وقت زمان پارک اور ظہور الہیٰ پیلس میں مرشد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر کوئی میٹنگ ممکن نہیں۔ ویسے تو مرشد علی افضل ساہی نوجوان ہیں۔ جولائی کے ضمنی انتخابات میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی بنے ہیں۔ بہت جونیئر ہیں۔ لیکن انہوں نے بہت سے سینیئرز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علی افضل ساہی کو پنجاب میں سی اینڈ ڈبلیو کی وزارت دی گئی ہے۔ یہ ایک بڑی وزارت ہے جو بڑے سینیئرز کو ہی دی جاتی ہے لیکن علی افضل ساہی کو اپنے مرشد ہونے کی وجہ سے یہ وزارت ملی ہے۔ انہیں پنجاب میں ایک وزیر سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ سے کم نہیں ہیں۔ لیکن تحریک انصاف میں بھی ان کی حیثیت اس وقت کسی بھی بڑے لیڈر سے زیادہ ہے۔
مرشد علی افضل ساہی کو ہر مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے۔ وہ جب سیاسی میٹنگ میں آتے ہیں تو سب تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی سفارش پر بڑے سے بڑا کام ہو جاتا ہے۔ افسر شاہی میں بھی مرشد کی بہت چلتی ہے۔ کوئی بیوروکریٹ ان کے کام کو انکار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے کام کو انکار ہو سکتا ہے لیکن مرشد کے کام کو انکار نہیں ہو سکتا۔ مرشد کی بات کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ نہ سننے کے عادی نہیں اور کوئی انہیں انکار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مرشد کے سر پر پنجاب حکومت قائم ہے، مرشد کی وجہ سے سب کے سر پر تاج ہیں۔ مرشد ہیں تو سب ہیں۔ مرشد نہیں تو کوئی نہیں۔
حال ہی میں پنجاب میں جو بحران آیا ہے اس میں بھی مرشد کو بہت اہمیت حاصل رہی۔ تمام فیصلے مرشد کی مشاورت سے ہوئے۔ مرشد کے کمالات سے گورنر کا نوٹیفکیشن معطل ہوا۔ مرشد کی وجہ سے سب وزیر بحال ہوئے۔ اسی لئے اس بحران کی ہر میٹنگ میں مرشد پیش پیش تھے۔ وہی سب کو تسلی دے رہے تھے۔ ان کی تسلی پر ہی سب کو تسلی تھی۔ ہر کوئی مرشد سے پوچھ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ مرشد بتا رہے تھے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کوئی اعتماد کا ووٹ نہیں لینا پڑے گا۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ مرشد جو کہہ رہے ہیں وہ ایسے ہی ہو جائے گا۔ عقل کہہ رہی تھی کہ عدالت کہے گی کہ اعتماد کا ووٹ لیں لیکن مرشد کی یقین دہانی تھی کہ نہیں، اس کے بغیر بھی بات بن جائے گی اور پھر سچ میں سب قانونی ماہرین غلط ثابت ہو گئے اور مرشد درست ثابت ہوئے۔ مرشد کے انہی معجزات اور کرشمات نے انہیں مرشد بنایا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
مرشد کا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے۔ لیکن یہ سیاسی گھرانہ 2018 کے انتخابات میں بری طرح ہار گیا تھا۔ مرشد نے اپنے سیاسی طور پر مردہ خاندان کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ مرشد کے خاندان کا ویران ڈیرہ آباد ہو گیا ہے۔ مرشد ایسے طاقتور ہیں کہ ان کے انتخاب کے دوران ان کے مخالف حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ تھے لیکن ان کے حلقہ میں کوئی افسر مرشد کی مرضی کے بغیر نہیں لگ سکتا تھا۔ مرشد کی طاقتیں کمال ہیں۔ ان کے دشمن بھی ان کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ مرشد کم ہی کسی کو نامراد جانے دیتے ہیں۔ وہ اس وقت (ق) لیگ اور تحریک انصاف میں برابر اپنا فیض بانٹ رہے ہیں۔ لوگ مرشد کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔ ان کے ناراض ہونے سے ڈرتے ہیں۔ مرشد کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ مرشد گرتی حکومت کو کھڑا کر سکتے ہیں۔ کھڑی حکومت کو گرا سکتے ہیں۔
آپ یہ مت سمجھیں کہ میں علی افضل ساہی کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی کا داماد خاص ہونے کی وجہ سے مرشد کہہ رہا ہوں۔ اس کا علی افضل ساہی کے مرشد ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک حسن اتفاق ضرور ہے۔ لوگ ان کے اس رشتے سے جلتے ہیں۔ حسد کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے مرشد ہونے کی خصوصیات کو اس سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم بھی ایسے ہی سمجھتی ہے کہ مرشد کی اس رشتہ داری کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ ان کے خلاف ہے۔ یہ بھی پراپیگنڈہ ہے کہ مرشد جو کہتے ہیں وہی ہو جاتا ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ مرشد کی اپنی ذاتی خصوصیات اور کمالات کو گھٹا کر دکھانے کی کوشش ہے۔