لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جسٹس شاہد جمیل کے صدر مملکت کو بھجوائے گئے استعفیٰ میں کہا گیا ہے کہ 'میں تقریباً 10 برس ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد آئین کے آرٹیکل 206 اے کے تحت استعفیٰ دینے کا آپشن استعمال کر رہا ہوں'۔ جسٹس شاہد جمیل نے اپنے استعفیٰ میں لکھا ہے کہ بطور جج کام کرنا میرے لیے اعزاز رہا، مگر اب میں زندگی کا نیا باب شروع کرنے جا رہا ہوں۔ جسٹس شاہد جمیل نے علامہ اقبال کے اشعار کو بھی استعفیٰ کے متن کا حصہ بنایا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کی فہرست میں گیارہویں نمبر پر آنے والے جسٹس شاہد جمیل خان 22 مارچ 2014 کو ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے تھے اور 29 اپریل 2029 کو انہوں نے اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر ریٹائرڈ ہونا تھا۔ جسٹس شاہد جمیل خان جج بننے سے قبل لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں جبکہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود کے چیمبر فیلو بھی رہ چکے ہیں۔ جسٹس شاہد جمیل خان سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سمدھی صابر مٹھو کے قریبی عزیز بھی ہیں۔
جسٹس شاہد جمیل خان کے قریبی دوستوں کا دعوٰی ہے کہ جج صاحب کو اس بات پر اعتراض تھا کہ ان کے سنگل بنچ میں سنائے گئے فیصلوں کو ڈویژن بنچ میں حکم امتناع جاری کر کے اور معطل کر کے انٹرا کورٹ اپیلوں پر حتمی فیصلے ہی نہیں کیے جاتے جس سے ان کی کارکردگی اور محنت متاثر ہوئی ہے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق جسٹس شاہد جمیل اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے مابین بھی اختلافات تھے اور یہ تب شروع ہوئے تھے جب محمد خان بھٹی کا متنازعہ ویڈیو بیان منظر عام پر آیا تھا۔ جسٹس شاہد جمیل نے اس متنازعہ بیان کی تحقیقات کرنے کے لیے فل بنچ بنانے کی سفارش کی تھی۔ عدالتی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو یہ خدشہ تھا کہ معاملے کا رخ کہیں ان کی ذات کی طرف نہ مڑ جائے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
عدالتی ذرائع کے مطابق ایک مرتبہ ہائی کورٹ کے ججز لان میں چائے کے وقفے کے دوران جسٹس شاہد جمیل خان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی کے مابین ٹھیک ٹھاک بحث و تکرار ہو گئی۔ اس دوران بات یہاں تک جا پہنچی کہ جسٹس شاہد جمیل خان نے چیف جسٹس پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے اپنے داماد علی افضل ساہی کو بچانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا سارا نظام خراب کر دیا۔ تاہم اس کے بعد ساتھی ججز نے جسٹس شاہد جمیل خان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کروایا۔
اسی دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقریر میں یہ بھی سننے کو مل گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں 100 ججوں کے خلاف انکوائریز زیر التوا ہیں۔ عدالتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جسٹس شاہد جمیل خان کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں انکوائری زیر التوا تھی۔ اسی خدشے کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور وجہ یہ بتائی کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق ماضی میں کسٹمز اور انکم ٹیکس ٹربیونلز میں ایسے وکلا کو نوازنے کے لئے بطور جج تعینات کیا گیا تھا جنہیں کسٹمز اور انکم ٹیکس قوانین کی 'اے بی سی' بھی نہیں آتی تھی۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے انکم ٹیکس اور کسٹمز اپیلٹ ٹربیونلز میں تعینات ایسے ججوں کو کسٹمز اور انکم ٹیکس قوانین سے لاعلم ہونے کی بنیاد پر عہدوں سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں بنے دو رکنی بنچ نے جسٹس شاہد جمیل کے بطور سنگل بنچ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتی ذرائع کے مطابق اسی وجہ سے انڈپینڈنٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے وکلا بھی جسٹس شاہد جمیل خان کے مخالف ہو گئے تھے اور انہوں نے بھی ان کے خلاف مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس ملک شہزاد احمد نے حتی الامکان کوشش کی کہ جسٹس شاہد جمیل خان استعفیٰ نہ دیں کیونکہ وہ ایک محنتی اور قابل جج تھے۔
جسٹس شاہد جمیل خان گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے محض چیمبر ورک پر توجہ دے رہے تھے اور قریبی ساتھی وکلا اور کورٹ رپورٹرز کے ساتھ بھی مشاورت کر رہے تھے۔ ان سب نے بھی انہیں استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دیا تھا۔
عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں منحرف اراکین کے ووٹ نہ شمار کرنے کی درخواست پر بننے والے پانچ رکنی بنچ میں جسٹس شاہد جمیل خان بھی شامل تھے۔ پنجاب میں چینی کی قیمتیں مقرر کرنے کا اہم فیصلہ بھی جسٹس شاہد جمیل خان نے سنایا تھا جبکہ 1948 سے گُڑ کی پیداوار روکنے کے لیے بنے 'گُڑ کنٹرول آرڈر' کو کالعدم قرار دینے سمیت درجنوں دیگر اہم کیسز کے فیصلے بھی انہوں نے دے رکھے ہیں۔