سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ مجھے برطرف کیا جائے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ مجھے برطرف کیا جائے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی جبکہ حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائزعیسٰی ‏نظرثانی کیس کی سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ ‏فروغ نسیم نے کہا خاتون کی شناخت شوہر سے ہوتی ہے، سرینا عیسیٰ ذرائع آمدن ‏بتادیں، وزیر قانون نے تمام خواتین کی توہین کی۔

ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا علیمہ خان نے ‏سلائی مشین سے لاکھوں پاؤنڈز بنائے، عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ‏ہوں۔

سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس فائز عیسیٰ کا ‏نام نہیں، لندن جائیدادوں کے لیے فنڈز کی منتقلی میں بھی میرے شوہر کا کردار نہیں، ‏کیس میں فریق نہیں تھے پھر بھی میرے اور بچوں کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔

جسٹس ‏عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نام سپریم جوڈیشنل کونسل میں جاری انکوائری میں ‏سامنے آیا، اس میں شک نہیں کہ آپ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئی ہیں جبکہ مقدمہ ‏غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔

جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی، جوڈیشل کونسل کے رویہ کے بعد ریفرنس کو چیلنج کیا۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ لندن جائیدادوں کا ‏ریکارڈ سپریم کورٹ کو فراہم کیا تھا۔ ‏

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹیکس کمشنر نے انکوائری کی جبکہ عدالت نے رپورٹ ‏چیئرمین ایف بی آر سے مانگی تھی، ایف بی آر نے سربمہر رپورٹ سیکریٹری جوڈیشل ‏کونسل کو دی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ کو ریاستی راز بنا کر رکھا گیا ہے، مجھے رپورٹ کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی، حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔

عدالتی حکم پر سیکریٹری سپریم جوڈیشل ‏کونسل نے ایف بی آر رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ‏کہ رپورٹ کی کاپی کروا کر آپ کو بھی دیں گے۔ ‏

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر پی ٹی آئی کے رکن اور غیر منتخب شخص ہیں، عدالت میرے متعلق فیصلے میں لکھی گئی آبزرویشن حذف ‏کرے، شہزاد اکبر عمران خان کی متوازی حکومت چلا رہے ہیں، میں اور میرے بچے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم عمران خان ‏پر بھی انکم ٹیکس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بھی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ‏ظاہر نہیں کیے، وہ بطور وزیر اعظم عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ الزام لگایا ‏کہ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں میں سچ نہیں بولا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ‏کہ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے لندن جائیدادوں کے مشترکہ مالک ہیں۔

جسٹس ‏منیب اختر نے کہا کہ اصل بات فنڈز کے ذرائع ہیں۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اس سے فرق ‏نہیں پڑتا کہ گھر میں کون کتنے پیسے دے رہا ہے، میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ‏گئی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایف بی آر کے مطابق لندن جائیدادوں کی قیمت 7 ‏لاکھ 51 ہزار پاونڈ ہے، ایف بی آر نے تسلیم کیا ہے کہ آپ نے اتنی رقم بھجوائی۔

سرینا ‏عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ٹیکس کمشنر نے میرے فارن کرنسی اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کیں، ‏میرے فارن کرنسی اکاؤنٹ کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ‏ملتوی کر دی گئی۔