سانحہ سیالکوٹ ایک ہجوم کی مذہبی شدت پسندی کا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ مبینہ طور پر ایک اسٹیکر اتارنے پر ایک فرد نے توہین مذہب کا الزام لگایا، باقیوں نے انکھیں بند کرکے اعتبار کیا، نہ کوئی ایف ائی ار کٹی، نہ مقدمہ چلا، نہ عدالت لگی، البتہ ہجوم نے خود ہی فیصلہ کیا اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر کو ظالمانہ طریقہ سے قتل کیا پھر لاش کو آگ بھی لگادی۔
اس واقعہ کے دوران لوگ تماشا دیکھتے رہے ، تصاویر اور ویڈیوز بناتے رہے۔ حملہ آور لوگ کیمرے کے سامنے آکر فخریہ انداز میں اس سانحہ کا کریڈٹ لیتے رہے۔
سیالکوٹ سانحہ کے بعد پوری پاکستانی قوم شرمسار ہےاورہونی بھی چاہیے کیونکہ یہ وہ سانحہ جس نے صرف اس قوم کو نہیں بلکہ اس مذہب کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کے نام پر یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ ایک طرف نو سو کا جتھا اور دوسری جانب صرف ایک شخص وہ بھی آپ کے ملک کا مہمان۔ عمران خان کے معاون خصوصی طاہر اشرفی نے اس دردناک سانحہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس واقعہ کو اسلام کے نام پر مذہب کو شرمندہ کرنے کی کوشش کا نام دیا ہے۔
کیا یہ فعل اور مناظر اس ملک کا خواب دیکھنے والوں اور قربانیاں دینے والوں کیلئے صحیح سلہ ہے بڑاسوال یہ بھی ہے کہ ایک سانحے کے بعد دوسرے سانحے کی نوبت آتی ہی کیوں ہے۔
اس کے کئی آسان جواب ہیں۔ سانحے سے سبق نہ سیکھنا سانحے کو کسی جواز کی بنیاد پر جسٹیفائی کرنا، سانحے سے متعلق ابہام سے بھرپور بیان بازی ہونا۔ ماضی میں ہونے والے اس ہی طرح کے سانحے میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک نہ پہنچانا بلکہ ایک مسلحہ جتھے کے ہاتھوں ریاست کا سرنگوں ہوجانا بھی ایک جواب ہے۔
جب کسی ملک میں ایسا سانحہ پیش آتا ہے تو قومی بیانیہ بہت اہمیت رکھتا ہے، اس ملک کے وزرا کیا کہتے ہے، ان کا طرزعمل کیا ہے بہت معنی خیز ہوتا ہے۔ وزیراعظم اپنی ہر تقریر کے آغاز میں مذہب کا حوالہ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں انتہاپسندی کی جانب پرھتی ہوئی سوچ کا تذکرہ اور مزمت نہیں کرتے، سج سے ہمارا قومی بیانیہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ابھی سیالکوٹ میں ہونے والے سانحے کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئی تھیں کہ ہما رے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک صاحب نے یہ بیان دے کر سوشل میڈیا میں آگ لگا دی کہ کچھ نوجوانوں نے اسلام کے نام پر جذبات میں آکر قتل کردیا اور آگ لگادی اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان تباہی کی طرف جارہا ہے۔
تازہ ترین مثال تحریک لبیک کے ہاتھوں معصوم پولیس اہلکاروں کی بے دردانہ موت اور پھر ان ہی کیساتھ ریاست کا معاہدہ ہے۔
جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب بحث یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا ؟
پہلی بڑی پیش رفت تو یہ ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر قومی ایکشن پلان کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق اب ہمیں دوبارہ جائزہ لینا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، ابھی تک نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا، کابینہ اجلاس میں بحث کے بعد واضح پالیسی نکلے گی۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اس انتہا پسندی کے طرف بڑھتے رجحان کو روکے اور اپنے آنی والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ ملک بنائے۔ سانحہ سیالکوٹ نہ پہلا اور نہ ہہ آخری واقعہ ہوگا اگر ہم نے اپنے بیانیے ، سوچ اور طرزعمل کے اندر تبدیلی نہ لائی ۔ ہمیں مذہب کو اپنی ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا چھوڑنا پڑے گا۔
خود وزیراعظم عمران خان نے بھی سیالکوٹ واقعے کے ملزمان کی قرار واقعی سزا یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے اور آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں قومی سلامتی اجلاس بھی ہوا جس میں قصورواروں کو کٹہرے میں لانے کا عزم کیا گیا ہے۔
بڑا پن ہے اس متاثرہ ملک کا، جس کے سفیر نے اب بھی پاکستان پراعتماد کا اظہار کیا اور اپنے ملک سے تعلقات خراب نہ ہونے کی بات کی۔ سری لنکا کے اس اعتماد کی وجہ شاید حکومت اور ریاست کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں بھی ہیں جو یقیناً حوصلہ بخش ہیں۔ شاید اس اعتماد کے پیچھے اس ریوڑ نما قوم میں موجود چند لوگ ایسے ہیں بھی جو شائد ہماری لاج رکھ پارہے ہیں۔
اس ہی ہجوم میں موجود ایک پروڈیکشن منیجر ملک عدنان بھی تھا جو اپنی جان کو داؤ پرلگاکر پریانتھاکمارا کو بچانے کی کوشش کرتا رہا اور وزیراعظم نے بجاطور پر اس اصلی پاکستانی کے لیے تمغہ شجاعت کا اعلان کیا۔ عدنان اور ان جیسے شہریوں کو صلہ دینا یقیناً اہم ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سزا دینا ہے۔
اس وقت تک اس گھناؤنے عمل میں ملوث ایک سو بتیس افراد گرفتار ہیں جن کو جتنی سخت سزا دیجائے گی اتنا ہی بطور ملک پاکستان کا دنیا کے سامنے سرنگوں سر پھر سے بلند ہوپائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ وقت ان کو بھی سزا دینے کا ہے جنہوں نے اس انتہاپسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا۔ان کو بھی سزا دینے کا وقت ہے جنہوں نے اس سوچ کو پروان چڑھانے والوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے ان سے آنکھیں پھیرے رکھیں۔
کیا یہ ہوسکے گا؟ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے اور بھول جاتے ہیں، ہمارے مذمتی بیانات صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہیں۔ ان مذمتی بیانات کے پیچھے اگر کوئی ایکشن نہیں ہیں تو ان بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ سانحہ صرف سری لنکا کا واقعہ نہیں ہے یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔