بدلتی ٹیکنالوجی: جانے کہاں گئے وہ دِن

بدلتی ٹیکنالوجی: جانے کہاں گئے وہ دِن
آج سے کچھ سال پہلے جب ہمارے یہاں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون موجود نہیں تھے تو وقت بہت اچھا تھا۔ وہ ایسا دور تھا کہ تصویر کھینچتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا جاتا تھا۔ کیونکہ یاشیکا کمپنی کےکیمرہ میں جو ریِل ڈالی جاتی تھی اس سے صرف چونتیس تصویریں ہی بن سکتی تھیں۔ اس لئے اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جو تصویر بھی بنے وہ اچھی بنے اور تصویر بنانے والے کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ بہت ہی دھیان سے تصویر بنائے کیونکہ تصویر خراب ہونے پر گالیاں بھی اسے ہی پڑنا ہوتی تھیں۔

Image result for selfie taking

آج کل تو سیلفی کا دور ہے جس میں آپ جتنا دِل کرے تصویریں بنا سکتے ہیں اور ان کو اپنی مرضی سے ایڈٹ بھی کر سکتے ہیں۔ پھر ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر لگا کر ڈھیروں لائکس حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر جو خوشی یاشیکا کے کیمرے سے بننے والی تصویریں جب فوٹو لیب سے دُھل کر آتی تھیں اُن کو دیکھ کر ہوتی تھی وہ اب نہیں ہوتی۔

میوزک سننے کا بھی اب وہ لطف نہیں رہا

اسی طرح اُس زمانے میں ٹیپ ریکارڈر پر آڈیو کیسٹ کے ذریعے میوزک سنا جاتا تھا۔ اور نئے آنے والے میوزک البم کا بہت شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔ اس وقت آڈیو کیسٹ کی دو مشہور کمپنیاں"سونک" اور "ایگل" ہوتی تھیں جو ہندی فلموں کے گانوں کا البم ہر مہینے ریلیز کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ مختلف گلوکاروں کے البم بھی یہ دو کمپنیاں ہی ریلیز کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ ٹی۔ڈی۔کے کمپنی کی آڈیو کیسٹس میں اپنی مرضی کے گانے ریکارڈ کروائے جاتے تھے اور ان کو بار بار سنا جاتا تھا۔

Image result for listening to music

آج کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے بلاشبہ موبائل یا کمپیوٹر پر ہر قسم کا گانا سُنا جا سکتا ہے، مگر جو خوشی سونک یا ایگل کے البم کا انتظار کر کے پھر اُن کا میوزک سن کر ہوتی تھی، وہ شائد اب نہیں ہوتی۔

سب سے زیادہ تو رابطوں کا طریقہ کار بدل گیا ہے

اس دور میں ٹیلی فون آ گیا تھا مگر اتنا عام نہیں ہوا تھا، اس لئے آپس میں رابطہ خطوں کے ذریعے ہی کیا جاتا تھا۔ چاہے محبت کا اظہار ہو یا کسی اہم معاملے پر بات کرنی ہو، خط ہی کا سہارا لیا جاتا تھا۔ عید کے آنے سے پہلے عید کارڈز ایک دوسرے کو بھیجے جاتے تھے۔

Image result for whatsapp texting

آج کے دور میں بلا شبہ رابطہ کرنا بہت آسان ہے۔ واٹس ایپ اور میسنجر کے ذریعے چیٹنگ، آڈیو اور وڈیو کالنگ کی جا سکتی ہے۔ مگر جو مزا اتنا انتظار کرنے کے بعد خط پڑھ کر یا عید کارڈ دیکھ کر آتا تھا، وہ اب نہیں آتا ہے کیونکہ وہ جذبات سچے محسوس ہوتے تھے۔ اور آج کل ٹیکنالوجی میں اتنی جدت کے باوجود بھی جذبات میں وہ سچائی نظر نہیں آتی ہے۔

ٹی وی چینلوں کی بھرمار مگر انٹرٹینمنٹ؟

اسی طرح تب ایک ہی ٹی وی چینل، پی ٹی وی ہوتا تھا جس کے ڈرامے اور پروگرام اتنے اچھے اور معیاری ہوتے تھے کہ پورا ہفتہ ان کے آنے کا انتظار رہتا تھا اور پی ٹی وی کے ڈرامے اتنے مقبول تھے کہ ڈرامے کے وقت سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں کیونکہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈرامہ سے محظوظ ہو رہے ہوتے تھے۔ آج کل ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے اور اُس وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ڈرامے بنائے جاتے ہیں مگر لوگ اُس طرح دیکھتے ہی نہیں ہیں۔

Image result for Pakistani dramas

اور شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی ڈرامہ مقبول ہو جائے۔ وہ کتابوں، رسالوں، اخباروں اور میگزینز کا دور تھا۔ معلومات اور علم کے حصول کے لئے ان سب ذرائع سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ آج کل انٹرنیٹ پر بلا شبہ معلومات اور علم کا خزانہ موجود ہے اور ایک کلِک سے بے شمار کتابیں، رسالے، اخبار، میگزین آن لائن پڑھے جا سکتے ہیں مگر جو اطمینان تسلی سے بیٹھ کر کتاب، اخبار، رسالہ یا میگزین پڑھ کر ہوتا تھا وہ شائد اب نہیں ہوتا ہے۔

اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہوتا چلا گیا

یہ کوئی بہت پرانے وقتوں کا بھی ذِکر نہیں ہے۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے کا ہی دور تھا جب سب کچھ ایسے ہوتا تھا۔ اور اس زمانے کے کئی لوگوں کے پاس اب بھی تصویروں کے وہ البم، سونک اور ایگل کے وہ آڈیو کیسٹس، وہ پیار بھرے خط اور عید کارڈز، وہ کتابیں اور رسالے موجود ہوں گے جِن کو دیکھ کر اُن کو وہ خوب صورت دِن یاد آتے ہوں گے اور اب بھی وہ اُتنا ہی خوش ہوتے ہوں گے جتنا تب ہوتے تھے۔ اُن سب چیزوں کی وہ خوشی، وہ جوش، وہ اطمینان اب ٹیکنالوجی میں اتنی جِدّت کے باوجود اس لئے نہیں ہے کہ جو سچائی اور جذبات کی روح تب تھی، اب شائد کم ہو گئی ہے۔

مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔