قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی متفقہ طور پر منظوری کے بعد پاکستان کے وزیراعظم کو اب یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کر سکتا ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر ملک کے وزیرِ اعظم کو مذکورہ اہم ترین اختیار پہلے حاصل نہیں تھا، اسی باعث نواز شریف نے اپنے ادوارِ حکومت میں فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنے گریز کیا۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے اسی باعث آج قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل کہا کہ پارٹی قیادت کی واضح ہدایات کے بعد ہی آرمی ترمیمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
میں ذاتی طور پر اپنے ایک حالیہ کالم میں بھی عرض چکا ہوں کہ یہ قانون سازی بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی کیونکہ یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے نہایت اہم اور بے حد ضروری ہو گیا تھا۔
اب دوسری جانب رخ کرتے ہیں کہ نوازشریف اور پیپلزپارٹی نے پہلے اس آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کیوں کی اور آخر میں آ کر اچانک حمایت کیوں کر دی؟
اس سوال کا جواب ابھی دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے آنا باقی ہے، لیکن اس وقت اتنا عرض کر دینا ہی کافی ہے کہ جو سہولت کار ماضی میں پارلیمنٹ پر لعنتیں بھجواتے رہے، سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو کہلواتے رہے اور جو حکومتی مہرے آج قومی اتفاق رائے پیدا ہونے کی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں، آج ان کے مالکان کی نوکریوں کے فیصلے اسی پارلیمنٹ میں انہی چور اور ڈاکو سیاستدانوں نے کیے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں سینیٹ الیکشن پر 64 ووٹ لینے والا ہار جاتا ہے 35 ووٹ والا جیت جاتا ہے۔ ایسے میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل پاس کرنا کون سا مشکل کام ہے، جو ممکن نہ ہو سکے۔
خان صاحب کی ٹینشن اب شروع ہوئی ہے اور اصل کھیل بھی شروع ہوا ہے جس کا اندازہ غالباً کپتان صاحب کو بھی بخوبی ہو گیا ہے۔ کیونکہ، خود انہی کے وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں بتایا کہ موجودہ آرمی چیف کی عمر 59 سال ہے، توسیع کی تین سال مدت پوری ہونے پر ان کی عمر 62 سال ہو گی۔ وزیراعظم چاہیں گے تو انہیں مزید دو سال توسیع دے سکیں گے۔ گویا معاملہ تین سال نہیں پانچ سال تک بھی جا سکتا ہے۔
نواز شریف اور آصف زرداری کو لیٹنے یا بوٹ پالش کرنے کے طعنے دینے والے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب خود پی ٹی آئی کے عہدیدار کپتان کو بھگو بھگو کے چھتر مار رہے ہوں گے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے بدلے میں خود انہیں اور ان کی اصل ٹیم کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے۔
یہ منظر نامہ آئندہ دو ماہ کے اندر اندر آنے والا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے جان لیوا جنگ لڑی ہے، آصف زرداری کا بطور صدرِ پاکستان اپنے تمام تر اختیارات پالیمنٹ کو دے دینا اور نواز شریف کو سویلین بالادستی کی بات کرنے پر تین مرتبہ اقتدار سے بے دخل کرنا اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے جا کر دو ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے ڈنکے کی چوٹ پہ آرمی ایکٹ کی مخالفت کی بلکہ ایوان سے واک آؤٹ کرنے سے قبل اسپیکر ڈائس کے سامنے جا کر آرمی ترمیمی بل کی کاپیاں بھی پھاڑ کر پھینکیں اور مذکورہ ترامیم کے خلاف جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور فاٹا کے ارکان نے احتجاجاً قومی اسمبلی کے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ تو ان میں اتنی ہمّت اور جرات نواز شریف کی سول سپرمیسی کے لئے شروع کی گئی جدوجہد اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے باعث ہی پیدا ہوئی۔
غداری کے متوقع فتوے کے باوجود اتنی ہمّت اور جرات اس سے پہلے کسی اور پارلیمنٹ کے نمائندے نے کیوں نہ کی۔ نوازشریف پر تنقید تو خوب ہو رہی ہے لیکن اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ نوازشریف اور اس کے خاندان نے ان گنت قربانیاں دے کر آپ کے سامنے اس ملک کے اصل مسئلے اور حقیقت کو عوام کے سامنے رکھا۔
پیپلز پارٹی پر بھی بے جا تنقید کے ڈونگرے برسانے سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر اس ملک میں جمہوریت کے لئے کسی نے قربانیاں دی ہیں تو وہ بھٹو خاندان ہی ہے۔ جب ہم سب بلکہ دنیا یہ حقیقت جانتی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے تو پھر آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ہاتھیوں کے ساتھ جنگ کر کے خود کشی کرنا بہتر ہے یا عقل کا استعمال کرتے ہوئے معاملات کو اپنی منشا کے مطابق لایا جائے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے سارے عمل میں یہ امر بھی آشکارہ ہو گیا کہ قومی میڈیا میں قومی سلامتی کے نام پر اس قدر لائیو کوریج اس سے پہلے کسی بل کی منظوری کے حوالے سے نہیں دیکھی گئی۔ کاش کہ ایسا بندوبست کبھی پاکستان کی شہ رگ اور روح، کشمیر کے معاملے پر بھی پارلیمنٹ میں ہو جاتا۔
آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ نواز شریف کو حقیر جانتے ہوئے اور اسے سیاست سے مائنس کرنے والے طاقتوروں نے بل آخر کھلے عام تسلیم کر لیا ہے کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت اور پارلیمنٹ سے ہی وابسطہ ہے، جس کا بڑا اور واضح ثبوت آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پالیمنٹ سے منظوری ہے۔
ووٹ کو عزت دینا اور کسے کہتے ہیں؟