چھوٹے شہر کے خواب بڑے ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک بے نام علاقے چونیاں سے پنجابی شاعر صحافی سجاد احمد ساجد کی برسی 10 جنوری کو ہے۔ چونیاں کے تعارف کے لئے چھانگا مانگا جنگل کا سہارا لیا جاتا ہے گو کہ پاکستان کی پرانی تحصیل ہے مگر بے نام ہے۔
پنجاب کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تو پنجابی ہے، جو بولی سنی اور سمجھی جاتی ہے مگر پنجابی کے ساتھ بھی یہی حال ہے نہ رسم الخط کا اندازہ ہے نہ پڑھی پڑھائی جاتی ہے، اسی بے نام زبان کے نامور شاعر سجاد احمد ساجد بھٹی کو گزرے ایک سال ہو گیا۔ شاعر نفیس طعبیت ہوتے ہیں۔ شاعر کا سب سے بڑا مسئلہ بھی روزگار ہوتا ہے۔ سو اک دن کالج میں امتحان کے داخلے کے لئے تصویر بنوانے کی ضرورت پڑی تو ساجد سٹوڈیوز کی طرف جانا ہوا۔ یہ تھی پہلی ملاقات بیاس کے کنارے ساجد بھٹی سے جو اپنے نام کی طرح نفیس شخصیت تھے۔ پنجابی زبان کے منفرد شاعر جن کی شاعری انسانی جبلت اور مزدور کی عکاسی کرتی ہے۔ درد، کرب اور امید سے بھری شاعری جس میں پنجابی زبان کی اپنائیت شامل ہے۔
گیت نگاری کے فن پہ بھی مہارت رکھنے والے ضلع قصور کے عظیم شاعر سجاد حسین ساجد بھٹی 15 اکتوبر 1981 کو ضلع قصور کے شہر چونیاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول چونیاں سے حاصل کی۔ بسلسلہ روزگار فوٹو گرافی کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ شاعری کے ساتھ صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ اردو اور پنجابی اخباروں میں چونیاں شہر کے علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کالم نویس بھی تھے۔ بیک وقت شاعر، ادیب، فوٹو گرافر اور صحافی سجاد حسین ساجد بھٹی نام تھا اک عہد کا، جذبوں، احساسات رومانوی حقیقتوں کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر ہو یا معاشرتی تلخیوں کو انقلابی و احتجاجی الفاظ کی روح بخشنے کی بات ہو سیاسی و سماجی شعور میں ساجد بھٹی اپنے آپ میں ایک مثال تھے۔
ساجد بھٹی کی پنجابی غزل جس میں معاشرتی رویے اور جہیز کی لعنت کی عکاس کرتی ہے۔
رِیت رواجاں-- مار مکایا
دِھی نیئں داجاں مار مکایا
میل ملاپ لئی ویلا ای نیئں
کماں کاجاں-- مار مکایا
اندروں تھوڑاں گھن چا لایا
باہروں لاجاں-- مار مکایا
اِس راجے دی قبر تے لکھناں
تَیریاں راجاں-- مار مکایا
موت وی دِھی لگدی اے ساجد
ایہدیاں واجاں -- مار مکایا
***************
ساجد سجن خیراں پچھن آیا اے
موت گھڑی کوں ٹل جاوے تے گل اے جی
مگر موت کب کچھ پل کی بھی مہلت دیتی ہے۔ سجاد حسین ساجد بھٹی 10 جنوری 2019 کو کسمپرسی کی حالت میں گورنمنٹ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بیماری کی حالت میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے مگر جاتے جاتے اس معاشرے کو پنجابی ادب کا شاہکار دے گئے۔ ان کی تصنیف " اوڑاں ماری دھرتی "شائع ہوچکی ہے اور ناقابل اشاعت کلام ابھی بھی پڑا ہوا ہے۔ اللہ پاک عظیم شاعر صحافی ادیب سجاد حسین ساجد بھٹی پہ اپنا رحم فرمائے۔
سجاد حسین ساجد بھٹی کی کتاب سے ایک پنجابی غزل
سجن بیلی سارے راہوں نس گئے نیں
اکلاپے دا سبق نرالا دس گئے نیں
اوڑاں ماری دھرتی سکدی رہ گئی اے
بدل فیر سمندراں اتےوس گئے نیں
جنگل بیلے اُجڑی ہوک سناندے نیں
پنچھی اندر سارے پھس گئے نیں
متھے توں نہیں وٹ کدے وی لہندے سی
جان توں پہلاں نمھا نمھا ہس گئے نیں
آس دی بیڑی چاڑھ کے خورے کاہدے لئی
تانگھ دے پیچاں نال پروہنے کس گئے نیں
ساجد ہنسا واں پتھریلیاں راہواں تے
پیراں دی تے خیر اے پتھر گھس گئے نیں