درویش کے دل اور پنجابی لوک شاعری جیسی طبعیت والا ایڈیٹر - طلعت اسلم کی یاد میں

درویش کے دل اور پنجابی لوک شاعری جیسی طبعیت والا ایڈیٹر - طلعت اسلم کی یاد میں
طلعت اسلم جسے سب پیار سے ٹیٹو بلاتے تھے میرا دوست تو نہیں تھا لیکن اس سے دوستی کی خواہش یا خواب ہمیشہ رہے گا۔ اگرچہ وہ میرے دوستوں محمد حنیف اور مصدق سانول کا دوست تھا۔ اس زمانے سے جب ہم نیوز لائین والے اور وہ ہیرالڈ والے کہانیوں کی حد تک ایک دوسرے سے مقابلے میں اور ایک دوسرے کی تاک میں 'پباں بھار' رہتے تھے کہ ان کی تاک، اس ماہ نیوز لائین کی یا ہماری تاک، ہیرالڈ کی کور سٹوری کس موضوع پر ہے؟ سپیشل رپورٹ کس کی ہے، کون کیا لکھ رہا ہے اور وہ کاش ہمارے پاس لکھتا یا لکھتی۔ وہ ہم سے وعدہ کر کے وہاں لکھنے لگے۔ لیکن یہ سب نیوز روم تک رہتا۔ جریدے کے دفتر تک رہتا۔

نیوز لائین کے 'سٹار رپورٹرز' نفیسہ شاہ، محمد حنیف کے ساتھ میں بھی تھا، اور 'ہیرالڈ' کے حسن زیدی، ضیغم خان، عباس جلبانی اور عامر احمد خان۔ ہمارے زاہد حسین تھے تو ان کے ظفر عباس، علی حسن اور ادریس بختیار۔ ہیرالڈ گورنر محمود ہارون اور ڈبل جیبوں والے سیٹھ یعنی حمید ہارون سے کسی تعلق یا ذاتی حوالے کی وجہ سے ایک حد تک لکھتا اور چھاپتا تھا کہ اس سے آگے ان کے بھی پر جلتے لیکن ہمارا نیوز لائین لاحد اور مادر پدر آزاد۔ یعنی کہ 'ساڈا بابا اتے سی'۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ انگریزی زبان کے یہ دونوں ماہنامے پاکستانی صحافت کے انتہائی موقر جریدے تھے اور ان میں ہونے والا جرنلزم آج کی پاکستانی صحافت میں یکسر ناپید ہے۔

میکدے بند ہوئے ڈھونڈ رہا ہوں تجھ کو
تو کہاں ہے مجھے آنکھوں سے پلانے والے

ٹیٹو اس زمانے میں پہلے ہیرالڈ کا سینیئر اسسٹنٹ ایڈیٹر تھا پھر ایڈیٹر لیکن متواتر یا اکثر اس کی شامیں مصدق کے فلیٹ پر گزرتیں۔ ہیرالڈ کی کاپی ڈائون ہوئی اور ادھر نیوز لائین کی۔ ٹیٹو آ نکلتا۔ یا مصدق اسے بلا لیتا یعنی بقول شخصے 'منگوا لیتا' تھا۔ وہ آ کر رندوں کی اس بزم میں بیٹھتا۔ سگریٹ کچی یا پکی۔ وہسکی۔ شسکی۔ قہقہے۔ جگتیں۔ گانا بجانا۔ طبلہ گھڑا۔ ہارمونیم۔ بحثیں۔ کبھی تکرار کی حد تک یہ سب ہوتا۔ گوسپ دنیا بھر کی۔

وہ بھی آدھا میراثی تھا اور مصدق تو تھا ہی۔ اور ہم بھی تھوڑے بہت۔ امداد حسینی کے بقول دور پہ دور چلتے پھر بھی پیاسے کے پیاسے رہتے۔

وہ ہمیشہ کسی سفر سے لوٹتا تو بہت سے ایڈونچر قصے اور لوک گیت اپنے ساتھ لاتا۔ پنجابی اور پوٹھوہاری لوک گیت۔ کیسے کیسے نہ لوک گیت اسے یاد رہتے۔ بالاکوٹ سے بنوں تک۔ وہ خود ایک درویش کے دل جیسا اور پنجابی لوک شاعری جیسی طبعیت رکھتا تھا۔ ایک معشوق آدمی تھا۔

ماہی وے میکوں جتی گھنا ڈے
اتوں بدھیساں لاچہ
جتی میکوں جلن نہ ڈیندی
تنگ کریندا لاچہ

میں سوچتا ہوں ممی ڈیڈی کلاس کے انگریزی میگزین کے اس ایڈیٹر کو کیسے کیسے نہ پنجابی سرائیکی، پوٹھوہاری لوک گیت نہ فقط یاد ہوتے تھے پر وہ مصدق کی سنگت میں چاہے سولو بڑے مزے میں گاتا بھی تھا۔ ایک سماں باندھ لیتا تھا۔ اسے عطااللہ عیسیٰ خیلوی، اللہ دتا لونے والا، سعید ہزارہ، طالب حسین درد، منصور ملنگی اور کئی پنجابی سرائیکی پوٹھوہاری لوک گائیکوں اور استادوں کے کلام یاد ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ میانوالی گیا اور واپسی پر آ کر کہا تھا۔ ایک عطااللہ کیا وہاں تو کئی عطااللہ جیسا گاتے ہیں۔ اس طرح کی شاعری کرتے ہیں۔ بس مواقع ملنے کی بات ہے۔ ٹیم ٹیم کی گیم ہےلالے۔

اور پھر مصدق دیالو کی طرف سے عطا کیے ہوئے میں سے تان لگاتا:

ساڈی رات پتن تے پئی
وے مہانڑیا وے

یا پھر مصدق گاتا:

بساں ملتان دیاں
جھنگ شہر نوں ٹر پئیاں
یاد آئی سجناں دی
آنکھیں وس وس رڑ پئیاں

وہ بہت ہی پرکشش وجیہ شخص تھا۔ ان دنوں جیسے میں نے اسے دیکھا اس پر شلوار قمیض اور پیروں میں میانوالی یا پنڈی وال کھیڑی۔ آج جب ایڈیٹر تو بڑی بات ہے رپورٹر بھی پراڈو میں گن مینوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں، ٹیٹو رکشا میں یا اپنے پارٹنر آزاد کے ساتھ اس کی 70 موٹر سائیکل پر آنے جانے والا شریف شہری تھا۔ یہ کیسا ایڈیٹر تھا وہ بھی ڈان گروپ سے تعلق رکھنے والے میگزین کا کہ محفل سے جاتے وقت رات گئے منہ میں ٹوتھ پیسٹ سے منجن کر جاتا تھا کہ مبادا راستے پر پولیس والوں کی سونگھا ٹیسٹ سے مڈ بھیڑ نہ ہو جائے جو کہ مصدق سمیت ہم کی کبھوں کی ہو چکی تھی۔ لیکن ٹیٹو کی دبنگ ایڈیٹر شیری رحمان کے کریڈٹ پر یہ بھی ہے کہ ایک رات دو بجے اسے گھر اس کے ایک نوجوان رپورٹر اور ایڈیٹوریل سٹاف ممبر نوجوان خاتون کا فون آیا کہ وہ درخشاں تھانے پر ہیں۔ کلفٹن کے بیچ پر سیر تفریح کرنے گئے تھے کہ شراب کی بوتل کے ساتھ پولیس پکڑ کر لائی ہے۔ شیری نے کہا ایس ایچ او کو فون دو اور اس سے کہا فوراً ان دونوں بچوں کو شراب کی بوتل کے ساتھ جہاں کہتے ہیں چھوڑ آؤ۔ اور ایس ایچ او نے ایسا ہی کیا۔ اور دوسری طرف ٹیٹو جیسا ایڈیٹر تھا۔

ٹیٹو کی ایڈیٹری اس کے ڈیسک اور میگزین تک تھی۔ اور ہونی بھی چاہیے۔

طلعت اسلم ایڈیٹروں کی اس صف کا شاید آخری ہی ایڈیٹر تھا جس میں رضیہ بھٹی اور احمد علی خان آتے ہیں۔ وہ ایڈیٹر جو نایاب ہیں اگر کہیں کہیں بچ بھی گئے ہیں تو خطرے تلے آئی ہوئی جنس ہیں۔ وہ بیماری کے باوجود ٹوئٹر پر کافی سرگرم تھا۔ وہ انتہائی سیاسی شعور رکھنے والا آدمی تھا۔

اڑک جانا ای اے مر وے
چل میلے نوں چلیے

اور اس سے میری دوستی کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ ٹیٹو کے پیاروں اور اس کے بھائی عمران اسلم سے میری گہری دلی تعزیت۔