پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ بچپن سے ہی یہ بچوں کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کسان، دہقان اور مزدور کو روٹی کی اہمیت بتائی جانے لگتی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں حالت بدل سی گئی ہے، اب روٹی کی اہمیت تو نظر آتی ہے لیکن روٹی اگانے والے کا خیال مشکل سے آتا ہے۔
دنیا میں بہت کم خطوں کو قدرت نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، جہاں دنیا کی زرخیز ترین مٹی سے لے کر بہترین موسم کے ساتھ ساتھ دریا، صحرا، سمندر، پہاڑ، جنگل، برف ہر نظارہ موجود ہے۔ پاکستان کا اگر سرکاری نشان دیکھا جائے تو وہ پاکستان کو مکمل طور پر ایک زرعی معیشت بتاتا ہے، پٹسن، چائے، کپاس اور گندم کے پودوں سے مزین ایک بہت با رعب اور خوبصورت نشان پاکستان اور پاکستان میں رہنے والوں کو دنیا بھر میں معتبر اور خوراک دہندہ ظاہر کرتا ہے مگر اب ان چاروں چیزوں میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
پاکستانی کسان دنیا کے جدید ترین دور میں بھی دنیا کے محنتی ترین پیشہ ور لوگوں میں شامل ہے مگر اتنی شدید محنت کے باوجود بھی دن بہ دن پیداوری لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور پیداوار میں کمی ہوتی چلی جا رہی ہے اور مجموعی قومی پیداوار انتہائی کم ہو کر صرف 18.9فیصدرہ گئی ہے۔
یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان ایک انسانی اور زرعی زرخیز ملک ہونے کے باوجود زرعی مداخل بھی درآمد کر رہا ہے اور زرعی مصنوعات بھی۔ اس سال میں پہلے مہینوں میں اگر برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا تو اس کے مقابلے میں درآمدات میں ہونے والا اضافہ 63 فیصد رہا اور درآمدات میں زیادہ تر پٹرولیم ، آٹو موبائل اور کھانے پینے کی اشیا تھیں۔
وجہ کیا ہے؟
اس کی سب سے بڑی وجہ شاید معاشی سیاست ہے جہاں عام کسانوں کی پہنچ نہیں۔
پاکستان میں گندم سب سے زیادہ استعمال ہونے والی فصل ہے جو کہ ضرورت بھی ہے کیونکہ پیٹ غریب کا بھی اس سے بھرتا ہے امیر کا بھی، فوجی کا بھی اور مزدور کا بھی، جج کا بھی قیدی کا بھی اور قبرسان میں بیٹھے ہوئے درویش کا بھی۔
پچھلے چند سالوں میں پاکستان گندم کی برآمد سے درآمد پر مجبور ہو گیا ہے حالانکہ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری گندم کی کاشت ہر سال اتنی ہوتی ہے کہ ہماری ملکی ضرورت پوری ہو جائے مگر ہر سال شروع میں انتظامیہ کی مدد سے زبردستی ڈنڈے کے زور پر گندم کسانوں سے سستے داموں خرید لی جاتی ہے اور اس کے باوجود سال کے آخری مہینوں میں آٹے کا بحران آ جاتا ہے جس سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور سب سے زیادہ مسئلہ دیہاڑی دار مزدور، تنخواہ دار اور غریب طبقے کا بن جاتا ہے۔
ابھی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان میں کھاد اور خاص طور پر یوریا کھاد کی کمی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ سال 2021 میں یوریا کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اور اب بھی روازانہ 25 ہزار ٹن یوریا پیدا ہورہی ہے، کھاد کمپنیاں کہہ رہی ہیں کہ اسمگلنگ ہو رہی ہے اور منڈیوں میں بیٹھے کھاد کمپنیوں کے نمائندوں کے مطابق کھاد میسر نہیں ہے تو یہاں کسان کیا کرے؟
اب کیا ہوگا؟
اس سال بہت سالوں (غالباً 2009 ) کے بعد پہلی بار یوریا کھاد کا بہت بڑا بحران نظر آ رہا ہے مگر اس سال یہ بحران خریف کی بجائے ربیع میں سر اٹھائے کھڑا ہے۔ جب گندم کی فصل پچھلے چند سالوں میں بتدریج کاشت اور پیداوار میں کمی کا شکار ہے۔
پاکستان میں یوریا بنانے والے کہتے ہیں کہ کھاد کے شعبہ کو آزاد کر دیا جائے حالانکہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی بھی اشاعت کردہ قیمت پر کوئی بھی کھاد پاکستان میں بکی ہوگی ہمیشہ قیمت زیادہ ہی ادا کرنی پڑی ہے تو پھر ڈیریگولرائزیشن کیسی؟
موجودہ دور میں ربیع کی فصل کی کاشت سے پہلے ڈی اے پی کی قیمت 8000 پر پہنچی اور جیسے ہی گندم کی بوائی کا مرحلہ طے ہوا یوریا پہلے تو نایاب ہوئی پھر کسانوں کی قطاریں بنی اور پھر 300 سے لے کر 800 روپے اضافے کے ساتھ رات کے اندھیرے میں دستیاب ہونے لگی اور اب حکومت نے درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کر کے کسانوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ درآمد ہونے والی یوریا کسان کو کیسے ملے گی اور کس قیمت میں دستیاب ہوگی؟
پاکستانی عوام کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سال ڈی اے پی کی قیمت گندم کی بوائی کے وقت 4000 روپے تھی اور یوریا بھی 1400 پر عام میسر تھی تو گندم کی امدادی قیمت کچھ نا کچھ کسان کے حق میں تھی مگر چونکہ کسان کو مہینے بعد تنخواہ نہیں ملتی اور نہ ہی اس کا کھیتی کے علاوہ کوئی کاروبار ہوتا ہے ، اس کی پچھلی فصل ہی روز مرہ کارروائیوں آئندہ فصل پر خرچ کی بچت ہوتی ہے مگر اس سال ڈی اے پی کی قیمت دوگنا ہو کر 8000 روپے ہو گئی اور یوریا 2500 روپے میں بھی دستیاب نہیں۔ ڈیزل، بجلی اورمہنگائی کی وجہ سے بچت کی نسبت خرچ میں اضافہ ہونے سے نا صرف بہت سے کسان مقروض ہو گئے بلکہ زیادہ تر لوگ تو فاسفورسی کھاد ڈال ہی نہیں سکے اور اب یوریا بحران کی وجہ سے گندم کی پیداوار 15 سے 20 فیصد کمی کا شکار ہو سکتی ہے۔ بالفرض اگر کچھ بیچ باچ کر کسان کھادیں ڈال بھی لے تو پیداواری لاگت بڑھ جائے گی جس کا الزام بھی آخر میں کسان پر ہوگا کہ غریبوں کے آٹے کیلئے مہنگی گندم پیدا کیوں کی؟
وقت ہاتھ سے نکلتا چلا جا رہا ہے پہلے ہی چینی اور گندم کی درآمد کی وجہ سے ہمارا تجاری خسارہ بہت زیادہ ہوچکا ہے اور اب کھادوں کی کمی پیداوار میں کمی کے باعث مزید کم ہو جائے گی اور مجبواً ہمیں آنے والے وقت میں مزید گندم درآمد کر کے عوام پر بالواسطہ یا بلاواسطہ بوجھ بڑھانا پڑے گا، جس پر بے تحاشہ زرمبادلہ بھی خرچ کرنا پڑے گا۔
یاد رکھیں کسان کو نہ تویوریا کے متعلق دعووں سے غرض ہے نا اعلانات سے، نا اسے سمگلنگ کی خبروں میں دلچسپی ہے اور نا ہی رسد بڑھانے سے مطلب ہے چاہے وہ 30% ہو یا 300%، اس کو صرف سستی اور طے شدہ قیمت میں اپنے لیے کھاد، بیج ،زرعی ادویات جیسے دویگر زرعی مداخل پانے ہیں چاہے جیسے بھی ہو۔ پاکستان پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تغیر(Climate Change) اور شہری ہجرت کے باعث قدرتی وسائل پر دباؤ کا شکار ہے اب ان معاملات کی وجہ سے نوجوان اور دیہاتی آبادی مزید بد دل ہوگی جس کی وجہ سے حالات سنگین ہونے کا خطرہ ہوگا جو مستقبل میں خوراک کی قلت کو جنم دے کر آئندہ مہینوں میں امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔
عامر حیات بھنڈارا ایک کسان اور سیاستدان ہیں۔ مصنف ایگریکلچر ریپبلک اور ڈیجیٹل ڈیرہ کے شریک بانی ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل aamerht@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ AamerBhandara@ کے نام سے ہے۔