'عمران خان جیل ٹرائل کے دوران رو پڑے'

عمران خان جج صاحب سے خاصے ناراض بھی لگ رہے تھے۔ جج صاحب نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے حکم دیا تھا کہ میری میرے بیٹوں سے بات کروا دیں۔ میں بات کرنا چاہتا ہوں لیکن جیل حکام نے پچھلے 5 ماہ سے میری بات نہیں کروائی۔ جب میں ان سے کہتا ہوں کہ جج صاحب کو حکم ہے اور آپ حکم عدولی کر رہے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی تحریری آرڈر نہیں ملا اور جب تک تحریری آرڈر نہ ہو ہم بات نہیں کروا سکتے۔ آپ انہیں تحریری آرڈر کیوں نہیں دیتے۔ اس کے بعد جج صاحب نے جیل حکام کو اس معاملے پر سرزنش کی کہ جب میں نے حکم دیا ہے کہ بات کروائیں تو آپ بات کیوں نہیں کرواتے؟ جس پر اہلکاروں نے جواب دیا کہ سینئر حکام سے پوچھ کر بتاتے ہیں۔

'عمران خان جیل ٹرائل کے دوران رو پڑے'

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان جیل میں صعوبتیں اور ذہنی تناؤ برداشت کرتے کرتے نڈھال ہو گئے۔ اڈیالہ جیل میں جاری ٹرائل کے دوران عمران خان اپنی بہنوں سے ملاقات کے دوران رو پڑے۔ جیل عملے کی جانب سے انہیں آنسو صاف کرنے کے لئے ٹشو پیپر دیا گیا اور موحول اتنا سوگوار ہو گیا کہ جج صاحب، نیب اہلکار اور وکلا سیٹ سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ کل توشہ خانہ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد ہونی تھی لیکن بشریٰ بی بی پیش نہیں ہو سکیں۔ عمران خان کو بھی جیل اہلکاروں کو ہدایت دے کر بلوانا پڑا۔ سماعت کے آغاز پر جج صاحب، نیب اہلکار اور وکلا، اور عمران خان کے وکلا جیل کی عدالت میں پہنچے۔ لطیف کھوسہ پیش ہوئے اور دوسرے وکیل شعیب شاہین کو بشریٰ بی بی کا خط دیا کہ یہ بی بی کی ایک دن کی حاضری سے چھٹی کی درخواست ہے۔ یہ جج صاحب کو دے دیں اور میری طرف سے احتجاج بھی درج کروائیں کے باہر ان کے 28 وکلا کھڑے ہیں لیکن انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ جب تک انہیں اجازت نہیں ملے گی میں عدالت میں پیش نہیں ہوں گا۔ میں بطور احتجاج واپس جا رہا ہوں۔ انہوں نے اپنی طرف سے ایک کارڈ سمارٹلی کھیلا کہ جب وہ یہاں نہیں ہوں گے تو فرد جرم کی کارروائی مؤخر ہو جائے گی۔

صحافی نے کہا کہ جب سماعت شروع ہوئی تو جج صاحب نے بشریٰ بی بی کے متعلق استفسار کیا۔ تب شعیب شاہین نے ان کی درخواست جمع کرواتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی نہیں آ سکیں۔ وہ ہفتے کے روز بھی عدالت کو مطلع کر کے گئی تھیں کہ سماعت منگل کو کر لیں، پیر کو پہنچنا مشکل ہے۔ بعد ازاں جج صاحب نے عمران خان کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کہاں ہیں اور انہیں کیوں نہیں پیش کیا گیا۔ جس پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آفتاب فوری اٹھے اور کہا کہ میں ان کو لے کر آتا ہوں۔ انہوں نے واپس آ کر عدالت سے کہا کہ خان صاحب مصروف ہیں، بس 5 منٹ میں آ رہے ہیں۔

صحافی نے بتایا کہ قریب 10 منٹ بعد عمران خان عدالت میں پیش ہوئے اور وہ جج صاحب سے خاصے ناراض بھی لگ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہر انسان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ مجھے سابق وزیر اعظم کے تو کیا بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیے جا رہے۔ جج صاحب نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے حکم دیا تھا کہ میری میرے بیٹوں سے بات کروا دیں۔ میں بات کرنا چاہتا ہوں لیکن جیل حکام نے پچھلے 5 ماہ سے میری بات نہیں کروائی۔ جب میں ان سے کہتا ہوں کہ جج صاحب کو حکم ہے اور آپ حکم عدولی کر رہے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی تحریری آرڈر نہیں ملا اور جب تک تحریری آرڈر نہ ہو ہم بات نہیں کروا سکتے۔ آپ انہیں تحریری آرڈر کیوں نہیں دیتے۔ اس کے بعد جج صاحب نے جیل حکام کو اس معاملے پر سرزنش کی کہ جب میں نے حکم دیا ہے کہ بات کروائیں تو آپ بات کیوں نہیں کرواتے؟ جس پر اہلکاروں نے جواب دیا کہ سینئر حکام سے پوچھ کر بتاتے ہیں۔

اس کے بعد عمران خان چلتے چلتے اس جگہ آ گئے جہاں ان کی فیملی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہاں انہوں نے اپنی ہمشیرہ علیمہ خان سے گلے لگ کر ملاقات کی، پھر دوسری ہمشیرہ ڈاکٹر عظمیٰ سے ملاقات کی اور ان کو کندھے پر تھپکی دی۔ کچھ دیر بعد وہاں سے سسکیاں لینے کی آواز آئی جیسے کوئی رو رہا ہو۔ وہاں موجود لوگوں نے دیکھا کہ جیل کا ایک سٹاف افسر ٹشو پیپر کے ڈبے سمیت عمران خان کی جانب بڑھا اور خان صاحب کو ٹشو پیپر دیا جس سے انہوں نے اپنے آنسو پونچھے۔ شاید عمران خان اپنے بیٹوں کو یاد کر کے رو رہے تھے۔ اگر ایک والد کی 5 ماہ سے اپنے بیٹوں سے بات نہ ہوئی ہو تو ایسے جذباتی ہونا نارمل سی بات تھی۔ جب جج صاحب نےعمران خان کو روتے دیکھا تو تھوڑے پریشان ہو گئے اور سماعت کو 10 منٹ کے لئے ملتوی کر دیا۔ جج صاحب اور ان کا سٹاف اٹھ کر چلے گئے۔ نیب اہلکار بھی اس جذباتی صورتحال پر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور نیب کے وکیل امجد پرویز نے باہر نکلنے سے پہلے عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ اپنی فیملی سے مل لیں اور کھل کر بات کریں۔ ہم پھر دوبارہ واپس آئیں گے۔ پھر جج صاحب، ان کا سٹاف، نیب اہلکار اور وکلا تمام وہاں سے چلے گئے۔ اس دوران عمران خان کے تین وکلا شعیب شاہین، شیراز رانجھا اور عمیر نیازی ان کے ساتھ ہی تھوڑے فاصلے پر موجود تھے۔ تینوں اس صورتحال سے رنجیدہ تھے اور سمجھنے سے قاصر تھے کہ کیسے عمران خان کو تسلی دیں۔ وہ اپنے بیٹوں سے بات نہ ہو پانے کی وجہ سے خاصے پریشان تھے اور جذباتی ہو کر رو پڑے تھے۔ پہلی بار لوگوں نے خان صاحب کو روتے ہوئے دیکھا۔

جب لنچ کے بعد سب سماعت کے لئے کمرہ عدالت میں اکٹھے ہوئے تو جج کے آنے سے قبل عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو 9 مئی کے واقعات تھے یہ میرے خلاف سازش تھی جو مجھے اور میری پارٹی کو فارغ کرنے کے لئے کی گئی۔ یہ ڈرامہ رچایا گیا تھا۔ میں اور میری پارٹی اس میں ملوث نہیں تھے۔ ان سب کا احتساب اور تحقیقات ہونی چاہئیں لیکن ان کی بجائے یہ میری تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ چیک کریں کہ جی ایچ کیو کی، کور کمانڈر ہاؤس کی اور دیگر تنصیبات پر حملوں کی فوٹیج کس نے نکالی تھی؟ اس کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ایک صحافی نے پوچھا کہ 'دی اکنامسٹ' کے آرٹیکل پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ آپ لکھیں کہ یہ میں نے خود لکھا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تو نہیں لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے لکھا ہے۔ میں نے زبانی لکھوایا ہے۔ جس کے بعد یہ لکھ کے باہر بھیجا گیا۔ تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میں نے لکھا ہے۔ یہ 100 فیصد میرا آرٹیکل ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اے آئی کے ذریعے میری ایک تقریر بھی تیار کی جا رہی ہے۔ اور ایک ہفتے بعد یہ جاری کی جائے گی اور پورا پاکستان اس کو دیکھے گا۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک اکرم صحافیوں والی سائیڈ سے دروازہ کھول کر اندر آئے اور کہا کہ عمران خان کہا کہ یہ آرٹیکل مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھا گیا۔ جیل کے اندر سے کوئی لیٹر باہر نہیں گیا۔ جس پر صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ یہ آرٹیکل اے آئی کے ذریعے لکھا گیا۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوتا تو اب تک ہم سب فارغ ہو چکے ہوتے۔ یہاں جتنے کیمرے لگائے جا سکتے تھے لگے ہوئے ہیں اور تمام کی فوٹیج چیک کی گئی ہے۔ کسی قسم کا لیٹر جیل سے باہر نہیں نکلا۔