اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ تفصیلی تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل پیش کیے۔ لطیف کھوسہ نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ یہ سائفر امریکہ میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا ۔سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اس ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے ،چیف ایگزیکٹو کو اس کا حلف ایسی صورت حال میں اختیار دیتا ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے عدالت میں وزیراعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنانے کے بعد دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حلف کے مطابق وزیراعظم کے پاس اختیار ہے وہ جس معلومات کو سمجھے عوام کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ بعدازاں سردار لطیف کھوسہ نے وفاقی وزراء کا حلف نامہ بھی عدالت کے سامنے رکھ دیا۔
سردار لطیف کھوسہ نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے جس پر چیف جسٹس نے سردار لطیف کھوسہ کو ہدایت جاری کی کہ سیاسی جماعتوں کا نام نہ لیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے فاضل جج کو بتایا کہ ایک بات واضح ہے کہ بطور وزیراعظم عمران خان کے سامنے سائفر آیا ،چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کو اعلیٰ سطحی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لے کر گئے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے سائفر کو بلیٹنٹ انٹرفیئرینس قرار دیا اور سخت ڈیمارش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ 38 ویں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں فارن سیکریٹری کو طلب کیا گیا۔فارن سیکریٹری نے سائفر کو کنفرم کیا۔ وزیراعظم نے بتانا ہے آپ کے ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ یہ خود وزیر اعظم نے جج کرنا ہے کہ ملک کو کسی ایکٹ سے کوئی خطرہ تو نہیں۔
عدالت نے وکیل پی ٹی آئی کے دلائل سنتے ہوئے وزیراعظم کے اختیارات سے متعلق سوال اٹھایا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں وہ جو درست سمجھتا ہے تو وہ اس کو ڈسکلوز کر سکتا ہے ؟ جس پر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے فاضل جج کے گوش گزار کیا کہ جی بالکل وزیراعظم جو درست سمجھتا ہے وہ ڈسکلوز کر سکتا ہے۔ پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے تو رہے یہ ان کا سیاسی ہتھیار ہے۔عدالت نے ایک بار پھر سردار لطیف کھوسہ کو کسی جماعت کا نام لینے سے روک دیا۔
سردار لطیف کھوسہ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی کورٹ میں جنگلے میں لا کر کھڑا کیا گیا تھا، یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئیں۔ ان کو جیل میں ڈر کس چیز کا ہے؟ کیا خوف ہے؟ وہ سابق وزیراعظم ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے بھی حقوق ہیں ان کا بھی وقار ہے۔ یہ اعظم خان کا بیان لے کر آ گئے ہیں جو تین ہفتے لاپتہ رہا۔ یہ کہتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا یہ مضحکہ خیز ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے نقطہ اٹھا یا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ایک ایسے آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا جس پر تاریخ تک نہیں تھی۔ 16 اگست کو ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ مانگا جسے ٹرائل کورٹ نے مسترد کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ۔عدالت کل چیئرمین پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کرنے جا رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم اپنا قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے اپنے آئینی حلف سے غداری نہیں کی۔
پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے۔بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بدنیتی نظر نہیں آئی۔
عدالت نے کہا کہ سابق وزیر اعظم خود اپنی سیکیورٹی کے حوالے متعدد بار خدشات کا اظہار کرچکے۔ عمران خان کو جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اگلے روز یعنی 30 اگست کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔ پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔