سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔
قائم قام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے دونوں ملزمان کی 10،10 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کےعوض ضمانت منظور کر لی تاہم بانی پی ٹی آئی سائفر کیس میں ضمانت کے باوجود آج رہا نہیں ہوسکیں گے۔بانی پی ٹی آئی 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل، توشہ خانہ کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
عدالت نے وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر بھی آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر 17 ماہ کی تاخیر سے درج ہوئی۔ سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے ایف آئی آر درج کروائی۔ پہلے فارن فنڈنگ کیس بنانے کی کوشش ناکام ہوئی، توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہوئی۔ اسی شام سائفر میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ سائفر کیس میں طلبی کے نوٹس 7 ماہ تک لاہور ہائیکورٹ سے معطل رہے۔ ایف آئی اے نے حکم امتناع کیخلاف کوئی کوشش نہیں کی۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ حکم امتناع تو آپ نے لے رکھا تھا پھر تاخیر تو آپ کے سبب ہوئی؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ طلبی کے نوٹسز میں کوئی ٹھوس چیز تھی ہی نہیں اس لیے معطل ہوئے۔ سائفر کیس میں وزارت داخلہ کے سیکریٹری شکایت کنندہ ہیں۔ 7 ماہ تک ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی۔ توشہ خانہ میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہو سکتیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں۔ سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمرقید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ائیر تو کیا ہی گیا ہے۔
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا۔ جس میٹنگ میں سائفر سازش منصوبہ بندی کا الزام ہے وہ 28 مارچ 2022 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ27 مارچ 2022 کو ہوا تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے۔ وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترخارجہ کا جرم ہے۔ سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا شاہ محمود قریشی نے تقریرمیں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے۔ حلف کا پابند ہوں۔ اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی 40 مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے۔کسی بھی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہر میں 40 مقدمات درج نہیں ہوئے۔ جس انداز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مقدمات درج کر رہے ہیں اسے رکنا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ پر سائفر کا مقدمہ چل رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ سائفر حساس دستاویز تھا جسے عوامی سطح پر شیئر کیا گیا۔ سائفر حساس کوڈڈ دستاویزتھا۔دفتر خارجہ کوڈڈ سائفر وزیر اعظم کو کیسے دے سکتا تھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا سائفر کیس میں 13 دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔ سائفر وزیر اعظم کو دینے کا کیا طریقہ کار ہے۔کیس یہ ہے کہ حساس معلومات شئیر کی گئی۔یہ بات ذہن نشین کر لیں نہ ہم سائفر کیس میں ٹرائل کر رہے ہیں اور نہ ہی اپیل سن رہے ہیں۔ہمارے سامنے ضمانت کا کیس ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 5 اگست جبکہ سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔
13 دسمبر 2023 کو خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ کے تحت سابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ایک بار پھر فرد جرم عائد کی تھی۔ اس سے قبل دونوں پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے قانونی تقاضوں کے ساتھ ازسرنو ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے بعد اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیکفیشن جاری ہوا۔