ایف آئی اے نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت میں سائفرکیس کا چالان جمع کرا دیا۔ چالان میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ملزم قرار دے دیا گیا۔ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کو ٹرائل کر کے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
ایف آئی اے کے چالان میں چیئرمین پی ٹی آئی کے مجرمانہ اقدام اور اس سے ہونے والے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اعظم خان کے بعد سابق سیکریٹری خارجہ اسدمجیداور سہیل محمود بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ایف آئی اے چالان فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے بھی سائفر کیس کاچالان تیارکرلیا جس میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے سائفر واپس نہ کرنے کا اعتراف کرلیا۔ چالان میں سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعہ 5 اور 9 کے تحت ملزم قراردے دیا گیا۔
سائفر کیس میں گواہوں کے بیانات نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا ۔ ایف آئی اے نے 28 گواہوں کی لسٹ چالان کے ساتھ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ 27 گواہوں کے 161 کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد چالان کے ساتھ انھیں منسلک کیا گیا ہے۔
چالان میں کہا گیا ہے کہ سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سیکریٹری خارجہ اسد مجید اور سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود بھی گواہوں میں شامل ہیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ فیصل نیاز ترمزی بھی ایف آئی اے کےگواہوں میں شامل ہیں۔ سائفر وزارتِ خارجہ سے لے کر وزیراعظم تک پہنچنے کے عمل میں موجود تمام چین کو گواہوں میں شامل کیا گیا ہے۔
چالان کے متن کے مطابق دفتر خارجہ کے 3 افسروں نے شہادت دی کہ سائفر واپس نہیں آیا۔ قواعد کے تحت سائفر دفتر خارجہ کو واپس کرنا ضروری تھا۔ سیکرٹری خارجہ کی ہدایت پر سائفر اعظم خان کو دیا گیا تھا۔
ایف آئی اے چالان کے مطابق سائفر کی غیر قانونی تحویل سے ملزموں نے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگایا۔ غیر ملکی قوتوں کو فائدہ پہنچا اور ملک کا نقصان ہوا۔ سابق وزیر اعظم کے غیر قانونی اقدام سے خارجہ تعلقات کوبھی نقصان پہنچا۔
سائفر کیس میں اعظم خان نے بیان دیاکہ سائفر پڑھنے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ اسے استعمال کرنا ہے۔ یہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف استعمال ہوگا۔سائفر کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کریں گے۔ اعظم خان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے امریکا پر سائفر سازش اپوزیشن کے ساتھ مل کر بنانے کا الزام لگایا اورسائفر کی کاپی اپنے پاس رکھ لی۔اگلے روز سائفر واپسی کا کہا تو سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سائفر گم ہو گیا ہے۔ حیرت تب ہوئی جب 27 مارچ کو سائفر کی کاپی جلسے میں لہرائی گئی۔
سائفر کیس میں بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے بیان نے بھی سابق وزیر اعظم کے سائفر بیانیے کی قلعی کھول دی۔ گواہ نے بتایا سائفر 7 مارچ کو آیا۔ 27 مارچ کو لہرایا گیا۔ 28 مارچ کو بنی گالا میں سائفر مجھ سے پڑھوا کر اسے میٹنگ منٹس کا حصہ بنا لیا گیا۔
بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے بیان میں کہا کہ کوئی بھی سائفر ٹیلیگرام ’ڈی کلاسیفائی‘ نہیں ہو سکتی۔ ایسا کرنے سے سائفر سکیورٹی سسٹم بری طرح متاثر سکتا ہے پھر بھی سابق وزیراعظم نے 8 اپریل کو کابینہ کے اجلاس میں سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کو کہا۔ میں نے بطور سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری کابینہ ڈویژن اور سیکریٹری قانون نے شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے کابینہ سائفر ’ڈی کلاسیفائی‘ کرنے کی منظوری نہیں دے سکی۔
سابق وزیر اعظم نے 9 اپریل کو اپنے اقتدار کے آخری روز پھر کابینہ اجلاس بلا لیا جس کے بعد سائفر کو ’ڈی کلاسیفائی‘ کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اس میٹنگ میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور اعظم خان بھی موجودتھے۔ سائفر کی کاپیاں صدر مملکت، چیف جسٹس، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ کو بھجوائی گئیں۔
بطور گواہ سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے امریکی ناظم الامور نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لہرائے گئے سائفر کی نقل منگوائی۔ ڈی جی امریکہ ڈیسک فیصل ترمذی کے بقول امریکی ناظم الامور خود سائفر لیکر امریکہ گئیں۔ ناظم الامور نے بتایا کہ جلسہ عام میں سابق وزیر اعظم کے بیان کو امریکا اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔
اعظم خان اور سہیل محمود کے بعد فارن سیکریٹری اسد مجید بھی عمران خان کے خلاف گواہ بن گئے۔اسد مجید کا 161 کا بیان بھی سامنے آگیا۔ اسد مجید کے بیان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو نقصان پہنچایا۔ ہمارے سفارتکار اور ان کی مستقبل کی سفارتکاری کی ساکھ پر بھی اس کا اثر پڑا۔ 7 مارچ سے لے کر آج تک سابق وزیرا عظم سے نہ کبھی ملا نہ ہی بل واسطہ اور بلا واسطہ بات چیت ہوئی، نا ہی میں نے کبھی وزیر اعظم کے معاون خصوصی سے بھی کوئی ملاقات کی نا ہی بات کی۔ میں نے اسسٹنٹ سیکریٹری یو ایس ڈپارٹمنٹ ڈونلڈ کو 7مارچ کو مدعو کیا۔ پاکستان ہاوس واشنگٹن میں ملاقات پہلے سے ظہرانے پر طے تھی۔
اسد مجید نے بیان میں کہا کہ سائفر کا ہمارے سفارتکاروں اوران کی ساکھ بھی اس کا اثر پڑا۔