پی ٹی آئی کا آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ

ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نے ریاستی وحکومتی ڈھانچے میں گہرائی تک سرایت کیے گئے مرض کی نشاندہی کی ہے۔ صدر کے بیان نے ریاستی نظم میں پھیلے انفیکشن کو بےنقاب کیا۔چیف جسٹس سے اس معاملے کی حقیقت، ذمہ داروں کے تعین اورمحاسبے کی استدعا کریں گے۔

پی ٹی آئی کا آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ

صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کے حوالے سے ٹویٹ کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

پی ٹی آئی نے قومی و عدالتی سطح پر صدرِمملکت کے موقف کی بھرپور تائید و حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اہم ترین قانونی مسودہ جات کی توثیق کے عمل پر صدرمملکت کا موقف سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہے۔

ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نے ریاستی وحکومتی ڈھانچے میں گہرائی تک سرایت کیے گئے مرض کی نشاندہی کی ہے۔صدرمملکت وفاق کی علامت، پارلیمان کا حصہ اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈرہیں۔ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد روکنا غیرآئینی اور ناقابل قبول ہے۔ معاملے کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔

ترجمان کے مطابق چیف جسٹس سے اس معاملے کی حقیقت، ذمہ داروں کے تعین اورمحاسبے کی استدعا کریں گے۔تحریک انصاف آئین و قانون کی بالادستی کیلئے صدرِ مملکت کے ساتھ کھڑی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھاکہ صدر مملکت کی ٹویٹ ہر لحاظ سے غیرمعمولی، تشویشناک اور ناقابلِ تصور ہے۔ ان کی ٹوئٹ کے بعد پوری قوم میں بےچینی کی سنگین لہر نے جنم لیاہے۔ صدر کے بیان نے ریاستی نظم میں پھیلے انفیکشن کو بےنقاب کیا۔ ان کی ٹویٹ کے مندرجات کا ہرپہلو سے جائزہ لے رہے ہیں۔

دوسری جانب آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائرکر دی گئی۔ درخواست شہری محمد سلیم ایڈووکیٹ نےدائرکی۔ درخواست میں وفاقی حکومت،وزرات داخلہ سمیت دیگرکوفریق بنایاگیا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ صدرعارف علوی نے کہا کہ انہوں نےآفیشل سیکرٹ ایکٹ پردستخط نہیں کیے تو یہ ایکٹ درست طریقہ کار کے مطابق پاس نہیں ہوا لہذا عدالت اسے معطل قرار دے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت آفیشنل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کی شق2،چاراور 11کوماورائےآئین قراردیتےہوئےکالعدم کرے۔

مزید استدعا کی گئی کہ عدالتی فیصلہ آنےتک قانون پرعمل درآمدروکتےہوئے حکم امتناعی جاری کیاجائے۔

واضح رہے کہ صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے بلکہ ان کے عملے نے ان کی مرضی اور حکم کو مجروح کیا ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔عملے سے کہا تھا بغیر دستخط بلوں کو مقررہ وقت پر واپس کر دیں۔ میں نے اپنے عملے سے کئی بار پوچھا کہ بل واپس کر دیے ہیں لیکن عملے نے یقین دہانی کروائی کہ بل واپس کر دیے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اللہ سب جانتا ہے اور یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے گا۔ ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔

آج صدر عارف علوی کی جانب سے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو حکم عدولی کرنے پر  عہدے سے ہٹانے کی سفارش بھی کر دی گئی۔

اس سلسلے میں ایوان صدر کی جانب سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھ کر کہا گیا کہ صدرمملکت کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔ لہذا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی  افسر ، حمیرا احمد  ، کو بطورصدر مملکت کی سیکرٹری تعینات کیا جائے۔

ایوان صدر کے مطابق کل کے واضح بیان کے پیشِ نظر ایوانِ صدر نے سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردیں۔