صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ بل بغیر دستخط کیے دوبارہ واپس بھیج دیا

صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ بل بغیر دستخط کیے دوبارہ واپس بھیج دیا
اعلیٰ عدلیہ سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی توثیق کھٹائی میں پڑ گئی۔ صدر مملکت عارف علوی نے عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بغیر دستخظ کیےدوبارہ واپس بھیج دیا۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے بل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں۔

صدر مملکت عارف علوی نے 8 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل آئین کےآرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے جبکہ بل قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔

بعد ازاں حکومت کی جانب سے بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کروایا گیا اور توثیق کے لیے دوبارہ صدر عارف علوی کے پاس بھیجا گیا تاہم ایک بار پھر صدر نے سپریم کورٹ بل بغیر دستخط کیے واپس بھیجوا دیا۔ انہوں نے اپنے اس عمل کے دفاع میں کہا ہے کہ قانون سازی کی اہلیت، بل کی درستگی کا معاملہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم میں زیر سماعت ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ زیرسماعت ہونے کا احترام کرتے ہوئے بل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں سمجھتا۔

بل کے حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر نے بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن یہ بل 20 اپریل کو ایکٹ بن جائے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بل پر حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ صدر بل پر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں بل نافذ العمل نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ 29 مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے انفرادی حیثیت میں ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظورکیاگیا جبکہ 30مارچ کو سینیٹ کی جانب سے بل منظور کیا گیا جس کے بعد بل صدرمملکت عارف علوی کے پاس منظوری کے لیے بھیجا گیا۔ صدر مملکت کی جانب سے بل  پر آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت شروع کی گئی۔ جس کے بعد انہوں نے بل نظر ثانی کے لیے واپس بھیج دیا۔

بل کی کاپی  کے مطابق بینچ کی تشکیل کا فیصلہ 3 ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی جو چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔

منظور شدہ بل میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کیس کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ معاملہ قابل سماعت ہونے پر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔معاملے کی سماعت کے لئے بنچ کم سے کم 3 رکنی ہوگا جب کہ تشکیل کردہ بینچ میں کمیٹی سے بھی ججز کو شامل کیا جا سکے گا۔

اس کے علاوہ سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے تین ججز کو حاصل ہو گا۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 روز میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ 14 روز میں اپیل کی سماعت کے لئے لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اپیل کرنے والے فریق کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا اور آئین کی تشریح کے لئے 5 سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں ہوگا۔