آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات، اور پاکستان میں احتساب کی تاریخ

آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات، اور پاکستان میں احتساب کی تاریخ
پاکستان کی تاریخ میں یوں تو کئی سیاستدان آئے جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو سرفہرست ہیں۔ دونوں رہنما نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بے حد مقبول ہوئے۔ بھٹو خاندان غریب عوام کی آواز بنا، ان کے حقوق کی اور جمہوریت کی جنگ لڑتا رہا۔ ملک و قوم کے لئے ان کی قربانیاں اور خدمات کا اعتراف آج ان کے سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں۔ قربانیوں کا سلسہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی (ان کے عدالتی قتل) کے بعد بھی ختم نہیں ہوا بلکہ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھٹو خاندان سے رشتہ جڑا تو بھٹو کے سیاسی مخالفین نے آصف علی زرداری کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔



آصف علی زرداری پر 1996 میں شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد کرپشن، منی لانڈرنگ سمیت دیگر سیاسی مقدمات بنائے گئے جن کی بنا پر آصف علی زرداری نے گیارہ سال جیل کاٹی۔ اس دوران ان پر کون سا ظلم تھا جو نہیں کیا گیا۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت، ایک جیل سے دوسری جیل، جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کا ہر طریقہ ان پر آزمایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی زبان کاٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ان کو قید تنہائی میں بھی رکھا گیا مگر "مرد حر آصف علی زرداری" نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کیا۔

بالآخر حق کی فتح ہوئی، ان پر قائم جھوٹے اور سیاسی مقدمات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور وہ گیارہ سال ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے کے بعد جھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہوئے۔



جرم نہ ہوتے ہوئے بھی آصف علی زرداری کو ایک مجرم کی طرح رکھا گیا اور سیاسی مخالفین اور وقت کے ڈکٹیٹر نے مظالم و تشدد میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کئی سالوں بعد تمام جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات سے ان کو باعزت بری کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے سیاسی انتقامی کیسز کو بند کر دیا گیا۔ یہاں انصاف کے ٹھیکیداروں پر کچھ سوالات جنم لیتے ہیں، کیا کسی باعزت انسان کو بنا جرم ثابت ہوئے گیارہ سال جیل میں رکھنا ٹھیک تھا؟ کیا ایک انسان کی کردار کشی کرنا اس کی زوجہ محترمہ بینظیر بھٹو کو ان کے جیون ساتھی اور ان کے چھوٹے بچوں سے دور رکھنا ٹھیک تھا؟

جس وقت ان معصوم بچوں کو باپ کی شفقت اور اس کی توجہ کی بےحد ضرورت تھی اس وقت وہ معصوم بچے اپنی ماں کے ساتھ مختلف جیلوں کے چکر کاٹتے رہے۔ کیا ان کو گیارہ سال جس باپ سے دور رکھا بنا کسی جرم کے اس کا کفارہ جھوٹے کیسز بنانے والے ادا کر سکے؟ کیا آصف علی زرداری کی زندگی کے وہ قیمتی گیارہ سال ان کو لوٹائے جا سکتے ہیں؟ جیل کی کال کوٹھڑی میں گیارہ سال گزارنے والے مرد حر آصف علی زرداری نے ان تمام ناانصافیوں اور مظالم کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

2007 میں جب بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی اس وقت ملک اپنے ہی اندر حالت جنگ میں تھا۔ ایسے میں آصف علی زرداری نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔ 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ آصف علی زرداری نے اپنی حکومت میں ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات بہترین طریقے سے سرانجام دیں اور یہ پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے اپنے پانچ سال مکمل کیے۔ اس کا سہرا بھی آصف علی زرداری کو جاتا ہے۔



آصف علی زرداری نے اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم کے ساتھ آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ بحال کیا، خیبر پختونخوا اور گلگت کو پہچان دی، غریب عوام کے لئے بینظیر انکم سپورٹ جیسا پروگرام متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی تاریخ ساز کام کیے۔ گویا آصف علی زرداری کی اولین ترجیح ملک اور اس کے عوام رہے۔

اب ایک بار پھر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نیب جو کہ ایک آمر کا بنایا ہوا ادارہ ہے، اس کو آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور صاحبہ کے ساتھ پرانے حربے آزمانے کے لئے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ ان پر ایک بار پھر کرپشن کے کیسز بنائے گئے ہیں اور اب تک ان دونوں کو کئی بار کراچی اور اسلام آباد کی عدالتوں میں بلایا جا چکا ہے مگر ابھی تک کوئی جرم ان پر ثابت نہیں ہو سکا ہے۔



ہر پیشی پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بےقصور ہیں اور جھوٹے کیسز بنانے والے ایک بار پھر ناکام ہوں گے۔ کسی بھی قسم کا حربہ یا جھوٹے کیسز ان کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ ماضی میں جو نامناسب رویہ ان عدالتوں اور اس وقت کی حکومتوں کا رہا اس کا کفارہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔ غیر جانبدارانہ احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن سیاسی انتقام پر اتری حکومت اور ادارے کسی طور قابل قبول نہیں ہو سکتے۔

مصنّفہ پیپلز پارٹی کی کارکن اور کراچی خواتین ونگ کی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر @ShahinaSaeeda پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔