1968-69 میں جائیں توعوام میں عمومی سطح پر درست خیالی اور فکری ترقی کے اشاریئے ملتے ہیں۔لوگوں میں اختلاف نظریات ،طریقہ کار اورسیاسی امور پرہوتا تھا۔ذاتیات پر بات کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔ نظریاتی اور سائنسی طرز فکر کوفوقیت دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بڑے سیاسی لیڈر، اساتذہ، شاعر، ادیب، گلوکار، اداکار الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن ہوا اور سبز پاسپورٹ کی عزت ہوتی تھی۔یہ سب کرشمے سیاسی قیادت کے تھے۔مولانا بھاشانی سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو تک صاحب فکر لیڈرشپ تھی۔
قوموں کی ترقی کا راز فکری ترقی میں ہےجو قومیں فکری لحاظ سے درست سمت میں ہوتی ہیں ۔ان کا طرز فکر درست خیالی پر مبنی ہوتا ہے ۔انہیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ضیاءالحق کے سیاہ دور میں عوام کی فکر کو قتل کیا گیاتھا۔ عوام کے فکر پر پہرے بٹھائے گئے اور سوچنے سمجھنے،لکھنے اور بولنے پر کوڑے برسائے گئے تھے۔ جبری پر لوگوں کو منافقانہ طرز اپنے پر مجبور کیا گیا۔زندگی کے خوشنماپہلو چھین کر موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگاپڑھا کر خوف کی کیفیت پیدا کی گئی تھی۔
ضیاء کی سیاہ آمریت میں سانس لینے والی ایک نسل جوان ہوئی اور ضیاء کے منافقانہ طرز فکر موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا پرجعلی اور ابن الوقت دانشور،لکھاری ،شاعر اور صحافیوں کی فوج بنی جو آج بھی اس فکر کی آبیاری میں لگی ہوئی ہے۔ جس فکر پر سیاسی جماعت بھی بنتی ہے، جماعت کے جلسوں میں ایک بزرگ صحافی کو قائد کااقبال بھی قرار دیا جاتا رہا ہے گو کہ آجکل بزرگ صحافی کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے مگر بیج تو بو دیا گیاہے جس کے مظاہر بڑی شدت کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔
تمہید کا مقصد یہی باور کرانا ہے کہ درست خیالی اور فکری ترقی لیڈر شپ سے آتی ہے۔خیالات نیچے سے اوپر کو نہیں جاتے ہیں بلکہ اوپر سے نیچے آتے ہیں۔ یہ قانون قدرت ہے جس طرح انسان کی تعلیم وتربیت اور درست سمت میں رہنمائی کی ضرورت تھی تو اللہ تعالی نے اپنے مامور بھیجے اور ان پر وحی اتاری کہ وہ اس طریقے سے انسان کی رہنمائی کریں۔اس کا بڑا ثبوت قرآن ،انجیل ،تورات اور زبور کا نزول ہے۔ یہ بات انتہائی احقمانہ اور گمراہ کن ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے حکمران ہوں ۔درست بات اس کے برعکس ہے کہ جیسے حکمران طبقات ہوں گے ویسے عوام ہوں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کی بھر مار ہے۔میڈیا انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔سوشل میڈیا نے جست میں انفارمیشن کی تیرترین فراہمی کی سہولت دی ہے، نجی تعلیمی اداروں کی بہتات ہے، معلومات ،تعلیم اور نالج کی کوئی کمی نہیں ہے۔اس سب کے باوجود منتشر اور مختلف الخیالی سمیت فکری مغالطے بے بہا ہیں۔ہم جرم اور گناہ ،ریاست اور حکومت میں فرق کرنے سے عاری نظرآتے ہیں۔جرات تحقیق پر آمادہ نہیں ہیں۔دلیل کی بجائے عدم برداشت ہے۔لعنت ملامت اور گالم گلوچ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
فکری ترقی اور درست خیالی کا کوئی سافٹ ویئر نہیں ہے اور نہ ہی ڈگریوں ،یونیورسٹیوں سے ہوتی ہے۔تعلیمی ادارے تعلیم کی ڈگریاں دیتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں تربیت کرتی ہیں ۔جس سے درست خیالی اور فکری ترقی ہوتی ہے اور قومیں عروج حاصل کرتی ہیں۔ درست خیالی کا فقدان اس لئے ہے کہ سیاسی جماعتوں نے محض اقتدار کو منزل بنارکھا ہے۔سیاسی جماعت کا منہاج قوم کی درست سمت رہنمائی اور تربیت ہوتا ہے۔جو آج کی کسی سیاسی جماعت کا منہاج نہیں ہے، قومی اور ملکی زوال کا بڑا سبب یہی ہے۔