سپریم کورٹ نے ہتک عزت کو جرم قرار دینے والے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے سیکشن 20 کے بارے میں مختلف ہائی کورٹس کے ذریعہ دیے گئے 2 علیحدہ علیحدہ فیصلوں کی آئینی حیثیت کا تعین کرنے کا اشارہ دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے کی کارروائی اگلی سماعت تک روک دی جو کہ معروف گلوکار علی ظفر کے ساتھ تنازع کا شکار ہیں۔
9 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے فیصلہ سنایا کہ پیکا کا سیکشن 20 قانون سازی کا ایک درست حصہ ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی نہیں کرتا جو آزادی اظہار اور اظہار رائے کو یقینی بناتا ہے، تاہم 8 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم دیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان اشتر اوصاف اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اس سلسلے میں معاونت کے لیے نوٹسز جاری کیے اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے 25 ستمبر 2020 کو میشا شفیع کے خلاف پیکا کے سیکشن 20 کے تحت درج کرائی گئی ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کیے جانے کے خلاف 9 مارچ کو اپیل کرنے کی اجازت دے دی۔
میشا شفیع پر سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر علی ظفر کو بدنام کرنے کا الزام ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکل 19 کے خلاف ہے اور کیا کسی فرد پر چوری کے الزامات لگانے پر اسے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے جو ہم آئے روز سنتے رہتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے تعجب کا اظہار کیا کہ آزادی اظہار رائے کو کیوں جرم بنایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم تمام ٹیلی ویژن چینلز پر ڈاکوؤں اور لٹیروں کے الزامات سنتے ہیں، یہاں تک کہ ججوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
علی ظفر کے وکیل سبطین فضلی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے الزامات ہتک عزت کے زمرے میں آتے ہیں، انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ الزامات کے خلاف دنیا بھر میں مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو سزا سنائی جاتی ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ایف آئی اے کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جب کالعدم تنظیموں نے ایسے بیانات جاری کیے جو ٹیلی ویژن چینلز پر بھی نشر کیے گئے تو ایف آئی اے نے آنکھیں بند کر لیں، انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے ایک ٹوئٹ پر مقدمہ درج کرتی ہے لیکن ایسی تنظیموں کے بیانات کو نظر انداز کرتی ہے۔
ایڈووکیٹ محمد ثاقب جیلانی اور خواجہ احمد حسین کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی کہ ہائی کورٹ نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ میشا شفیع کے خلاف درج ایف آئی آر واضح طور پر بدنیتی پر تھی اور یہ علی ظفر کی جانب سے دائر ہتک عزت کے مقدمے میں صرف درخواست گزار کے گواہوں کو ڈرانے اور خاموش کرنے اور اس کے دفاع کو کمزور کرنے کے لیے درج کی گئی تھی۔
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ 19 اپریل 2018 کو میشا شفیع نے ٹوئٹر پر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور بطور خاتون اداکارہ انہیں درپیش رکاوٹوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔
درخواست میں بتایا گیا کہ میشا شفیع نے کہا کہ اس کے لیے بات کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے آس پاس موجود دیگر خواتین بھی ایسا کر سکیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ پیکا 2016 کے سیکشن 20 نے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کی ہے، آزادی اظہار کی ضمانت میں شہریوں کا یہ حق شامل ہے کہ وہ جوابی کارروائی کے خوف یا دھمکی کے بغیر بات چیت اور خیالات کو بیان کر سکیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ چونکہ درخواست گزار کو سزا سنائے جانے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے اس لیے ٹرائل کورٹ کے سامنے فوجداری کارروائی کا تسلسل متاثرین کی مبینہ طور پر تذلیل اور دھمکانے کے لیے کیا جانے والا فضول عمل ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے پاس فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 561 اے کے تحت اختیار ہے کہ سی آر پی سی کی دفعہ اے 249 یا کے 265 کے تحت ٹرائل کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی وہ ایسی تمام کارروائیوں کو منسوخ کر دے جو قانون کے عمل کا غلط استعمال ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کا دائرہ اختیار ٹرائل کورٹ تک ہے اور اگر وہ مناسب سمجھے تو مقدمے کی سماعت سے پہلے کسی بھی کارروائی کو منسوخ کر سکتی ہے۔