پاکستان میں صحافیوں کو جہاں معاشی مشکلات کا سامنا ہے وہیں بڑی تعداد ایسے صحافی کارکنوں کی ہے جنہیں علاج معالجے کے لئے ان کے ادارے کوئی مالی معاونت نہیں کرتے جبکہ صحافتی ذمہ داریوں کے ادائیگی کے دوران اگر کسی صحافی کی موت ہوجائے تو زیادہ تر میڈیا ہاؤسز ایسے ہیں جو مرنے والے کے ورثا کی امداد کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ تاہم سابق وفاقی حکومت نے صحافیوں کے لئے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ پنجاب کی نگران حکومت نے ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے صحافیوں کے لئے انڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے۔
ایک حادثہ نے سینئرکیمرہ مین کی زندگی ہی بدل دی
اڑتالیس سالہ فرقان شاکر سینئر فوٹو گرافر ہیں جو گزشتہ چند روز سے لاہور پریس کلب کے داخلی دروازے کے ساتھ بیٹھے نظرآتے ہیں۔ کلب میں آنے،جانے والوں کے چہروں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ وقت خاموش بیٹھے خلاؤں میں گھورتے رہتے یا پھر کسی سے سگریٹ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔
فرقان شاکر لاہور میں شام کو شائع ہونیوالے ایک معروف اخبار میں بطور فوٹو گرافر کام کرتے تھے ۔ تاہم سن 2019 میں ان کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا، جس کے نتیجے میں ان کے دماغ پر چوٹ لگی اور وہ ذہنی توازن کھوبیٹھے۔ فرقان شاکر ایک بیٹی اورایک بیٹے کے باپ ہیں۔ بیٹی میٹرک کی طالبہ جبکہ بیٹا مڈل کلاس میں ہے۔ فرقان شاکر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (مینٹل ہسپتال) میں زیرعلاج تھے۔ اگست 2023کے آخری ہفتے مینٹل ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے سوشل میڈیا پر فرقان شاکر کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ اس شخص ( فرقان شاکر) کو اس کی فیملی علاج کے لئے یہاں چھوڑ گئی تھی ۔ اس کی دماغی حالت پہلے سے کافی بہتر ہے۔ اب اسے فیملی کے ساتھ وقت گزارنے اور اچھی خوراک کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی فیملی نے دوبارہ کبھی رابطہ نہیں کیا۔
سوشل میڈیا پرویڈیو وائرل ہونے کے بعد لاہور پریس کلب کے ممبر اورفرقان شاکر کے دوست انہیں ہسپتال سے گھرلے آئے اور اب وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں تاہم وقت گزارنے کے لئے لاہورپریس کلب میں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
فرقان شاکر کی فیملی نے بتایا کہ وہ ان کی عیادت کے لئے ہسپتال جاتے رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال والے جان چھڑانے کے لئے کہتے تھے کہ مریض کو گھر لے جائیں۔ ہماری یہ خواہش تھی کہ انہیں مکمل صحت یاب ہونے تک ہسپتال میں رکھا جائے۔ فرقان شاکر کئی ماہ تک ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔اس دوران ان کے ادارے نے ان کو نوکری سے فارغ کردیا۔ اب ان کی دماغی صحت توکسی حد تک بہتر ہوگئی ہے مگر اب جگرکی بیماری لاحق ہوگئی ہے اور علاج کے لئے ان کے پاس ایک پائی تک نہیں ہے۔
دوسری طرف جس ادارے سے انہیں فارغ کیا گیا تھا وہاں کی انتظامیہ نے بتایا کہ فرقان شاکر کا جب ایکسیڈنٹ ہوا تو اس وقت علاج کروانے کے لئے ادارے نے ان کی معاونت کی تھی تاہم جب ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور وہ دفترآنے کے قابل نہیں تھے تو انہیں نوکری سے فارغ کیا گیا تھا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری جنرل اورلاہورپریس کلب کے سابق صدر ارشد انصاری نے بتایا کہ جن دنوں فرقان شاکر کے ساتھ یہ حادثہ رونما ہوا تھا وہ گورننگ باڈی کے دیگر ممبران کے ہمراہ فرقان شاکر کے گھر گئے تھے ۔ فرقان شاکر کی فیملی نے مالی مشکلات کی وجہ سے گھر کا نچلا پورشن پانچ لاکھ روپے کے عوض گروی رکھا تھا جبکہ روزمرہ کے اخراجات اور بچوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ فیملی شدید مشکلات کا شکار تھی۔ ارشد انصاری نے بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر رقم ادا کرکے ان کے گھرکا پورشن جو گروی رکھا گیا تھا وہ واپس لیا اور وہ پورش معقول ماہانہ کرایہ پررینٹ آوٹ کردیا جس سے اس فیملی کے لئے آمدن کا ذریعہ بن گیا ۔اسکے علاوہ بھی اس فیملی کی ماہانہ معاونت کا انتطام کیا گیا۔
صحافیوں کے علاج معالجہ کے لئے لاہورپریس کلب کا کردار
فرقان شاکرکی طرح کئی ایسے صحافی ہیں جن کے اداروں کی طرف سے انہیں علاج معالجہ کے لئے کوئی سہولت میسر نہیں ہے اور انہیں ذاتی خرچے پرعلاج کروانا پڑتا ہے۔ پریس کلب اورصحافیوں کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی اس حوالے سے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔
سینئرصحافی اور لاہور پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد کہتے ہیں کہ لاہورپریس کلب شاید وہ واحد ادارہ ہے جس نے اپنے ممبران کے لئے لائف انشورنش پالیسی متعارف کروائی تھی۔ لاہورپریس کلب نے 1997-98 میں ممبران کے لئے لائف انشورنش متعارف کروائی تھی جس کا پریمیئر کلب اپنے بجٹ سے ادا کرتا ہے۔ کلب ممبران سے سالانہ ایک ہزار روپے ممبرشپ فیس لی جاتی ہے جبکہ گروپ انشورنش کا سالانہ پریمیئر تقریبا ساڑھے تین ہزار روپے فی ممبر ہے۔ جبکہ ممبران جو فیس دیتے ہیں اس میں اسے انہیں کیفے ٹیریا میں کھانے اور چائے پر سبسڈی سمیت دیگرسہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت وفات پانیوالے متعدد صحافیوں کے ورثا کو سٹیٹ لائف آف پاکستان کی طرف سے انشورنش کی رقم دلوائی گئی ہے تاہم بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے پریمیئرادا نہ ہونے کی وجہ سے وہ پالیسی غیرموثر ہوگئی تھی لیکن اب دوبارہ اس کو بحال کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور پریس کلب کے کسی ممبرکی وفات کی صورت میں 8 سے 10 لاکھ روپے اس کے ورثا کودیےجائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی جرنلسٹ بیمارہوجائے تو اس کے علاج کے لئے محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے ذریعے علاج کروانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ بہت محدود ہے۔
صحافیوں کے لئے ہیلتھ کارڈ کے اجراکا اعلان
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران وفات پانیوالے صحافیوں کے لئے خصوصی فنڈ کے قیام کا اعلان کیاتھا جس کے تحت کسی حادثے میں جاں بحق ہونے والے صحافی کے لواحقین کو 40 لاکھ روپے ادا کئے جائیں گے جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہیلتھ کارڈ کے اجراکا بھی اعلان کیا جس کے بعد ملک بھر سے صحافیوں کی آن لائن رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ تاہم آن لائن رجسٹریشن کروانے والے کسی بھی صحافی کو ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے جبکہ پنجاب میں کسی بھی صحافی کو ہیلتھ کارڈ نہیں مل سکاہے۔
وزارت اطلاعات ونشریات کے حکام کے مطابق اس منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ ملک بھر سے رجسٹرڈ پریس کلبوں سے صحافیوں کا ڈیٹا لیا جارہا ہے ا سکے علاوہ تمام صوبوں کے محکمہ تعلقات عامہ اور پھر آن لائن ڈیٹا کولیکٹ کیا جارہا ہے ۔ تمام ڈیٹا کو اکٹھا کرکے تصدیق کی جائیگی۔حکام نے بتایا کہ ہیلتھ کارڈ کے لئے کسی صحافی کا پریس کلب کا ممبرہونا ضروری نہیں ہے۔ میڈیا ہاؤس کے تمام ورکرز اس سہولت سے مستفید ہوسکیں گے۔ حکام نے بتایا کہ ملک بھرمیں صحافیوں کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے سے متعلق کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔
صحافیوں کے علاج معالجہ کے لئے نمائندہ تنظیموں کا کردار
ارشد انصاری کہتے ہیں کہ چند بڑے میڈیا ہاؤسز کی طرف سے اپنے کارکنوں کو علاج معالجہ کے لئے معاونت کی جاتی ہے جبکہ دوران ڈیوٹی وفات پانیوالوں کے ورثا کو بعض ادارے معقول معاوضہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان اگر اپنے کارکنان کی سوشل سیکیورٹی اور اولڈایج بینفیٹ انسٹی ٹیوشن (ای اوبی آئی) میں رجسٹریشن کروا دیں توصحافیوں کو کئی سہولتیں مل سکتی ہیں۔
سوشل سیکیورٹی کے ساتھ رجسٹریشن سے کارکنان اوران کی فیملی کو علاج کی سہولت میسر آئیگی جبکہ مستحق صحافی کارکنان کو اپنی بییٹیوں کی شادی پر میرج گرانٹ بھی مل سکے گی۔جبکہ ای اوبی رجسٹریشن سے کارکنان کو 60 سال عمر کے بعد پینشن مل سکے گی۔
پنجاب میں صحافیوں کے لئے انڈومنٹ فنڈقائم
پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے 2013 کے تحت ڈی جی پی آر پنجاب روبینہ افضل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے سن 2009 میں جرنلسٹ سپورٹ فنڈ بنایا تھا لیکن اس فنڈ کے لئے بہت کم رقم مختص کی گئی تھی۔ اس فنڈ سے مستحق صحافی اگروہ بیمار ہوجائے، یا ا سکی بیٹی کی شادی ہو یا پھرخدانخواستہ کسی صحافی کی وفات کی صورت میں اس کے ورثا کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ تاہم موجودہ نگران حکومت نے ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے صحافیوں کے جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ کیا ہے۔نگران صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی تھی جبکہ محکمہ خزانہ نے فنڈز بھی مختص کر دیئے تھے تاہم اس دوران فنانس مینجمنٹ ایکٹ دوہزاربائیس کے تحت انڈومنٹ فنڈ کے رولز بنانے تھے۔ وہ رولز رواں سال جولائی میں تیارہوگئے تھے۔ ان رولز میں یہ طے کیا گیا ہے کہ انڈومنٹ فنڈکن مقاصد کے لئے استعمال ہوگا۔ یہ رولز اپنانے کے بعد ہم نے دوبارہ کیس منظوری کے لئے بھیجا ہے۔صوبائی کابینہ نے دوبارہ اس کی منظوری دینی ہے جس کے بعد اس فنڈز کے تحت امداد کی فراہم شروع ہوجائیگی۔
انہوں نے بتایا کہ اس فنڈ سے لاہورپریس کلب کے ممبران کی مدد کی جاسکے گی۔ مزید تفصیلات نگران کابینہ کی منظوری کے بعد ہی بتائی جاسکتی ہیں۔
صحافتی ادارے کارکنان کی ہیلتھ اورلائف انشورنش کیوں نہیں کرواتے؟
پاکستان میں زیادہ تر اخبارات اورٹی وی چینلز کی طرف سے اپنے ورکروں کے لئے ہیلتھ اورلائف انشورنش کی سہولت میسرنہیں ہے۔ اس حوالے سے کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے ذمہ داران سے موقف لینے کی کوشش کی گئی مگر کسی تنظیم نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری رانا عظیم نے بتایا میڈیا مالکان اپنے کارکنان کا استحصال کرتے ہیں۔ جو میڈیا ہاؤسز بطور کمپنی رجسٹرڈ ہیں ان اداروں نے اپنے ریگولرملازمین کی گروپ ہیلتھ انشورنش کروارکھی ہے کیونکہ کمپنی رولز کےمطابق ایسا کرنا ضروری ہے لیکن جو اشاعتی ادارے ہیں وہ چونکہ بطورکمپنی رجسٹرڈ نہیں ہیں اس لئے ان پرکمپنی رولزلاگونہیں ہوتے۔ وہ اپنے ورکرز کی گروپ انشورنش کرواتے ہیں اور نہ ہی سوشل سیکیورٹی کے پاس رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فرقان شاکر کی طرح نجانے کتنے صحافی علاج معالجے کے لیے ایک ایک پائی کے محتاج ہوجاتے ہیں۔