افغانستان میں جھڑپوں کے دوران روئٹرزکے ایوارڈیافتہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی جاں بحق ہوگئے۔
دانش صدیقی بین الاقوامی نیوز ایجنسی روئٹرزکے لئے کام کرتے تھے۔ کچھ دن سے وہ قندھار کی موجودہ صورتحال کا کوریج کررہے تھے۔
برطانیہ کے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ وابستہ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی افغانستان کے علاقے سپن بولدک میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان گزشتہ چند دن سے جاری جھڑپوں کے دوران ہلاک ہو گئے ہیں۔ جمعہ کو افغانستان کے سفیر فرید ماموندزی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر یہ معلومات دی ہے۔ ’ دانش صدیقی قندھار میں فرنٹ لائن پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ہلاک ہو گئے ہیں۔‘ افغان سفیر فرید ماموند زئی نے کہا کہ ’میں اپنے دوست کی ہلاکت پر شدید صدمے میں ہوں۔‘
https://twitter.com/FMamundzay/status/1415929749881253893
پُلٹزر ایوارڈ یافتہ صحافی دانش صدیقی کا تعلق انڈیا کے شہر ممبئی سے تھا اور وہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے وابستہ تھے۔ دانش صدیقی نے دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ سے معاشیات میں گریجویشن کی تھی اور 2007 میں اسی یونیورسٹی سے انہوں نے ماس کمیونیکشن کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔
انہوں نے اپنا صحافتی سفر ٹیلی وژن نمائندے کے طور شروع کیا لیکن جلد ہی وہ فوٹو جرنلزم کی جانب منتقل ہو گئے تھے۔ 2010 میں دانش صدیقی انٹرن کے طور پر خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے سنہ 2016–17 میں موصل جنگ اور اپریل 2015 میں نیپال کا زلزلہ اور روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران کو کور کیا۔
دانش صدیقی نے سنہ 2019–2020 ہانک کانگ میں پھوٹنے والے مظاہروں اور سنہ2020 میں انڈین دارالحکومت دہلی میں ہوئے فسادات سمیت جنوبی ایشیا ، مشرق وسطیٰ اور یورپ سے متعلق کئی اہم اسٹوریز پر کام کیا۔ سنہ 2018 میں روئٹرز کے لیے روہنگیا مہاجرین کی بحران کی فیچر فوٹو گرافی کی بنیاد پر انہیں پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا اور یوں وہ اور ان کے ساتھی عدنان عابدی پُلٹزر پرائز لینے والے پہلے انڈین صحافی بن گئے۔
سنہ 2020 میں دہلی فسادات سے متعلق ان کی ایک تصویر کو روئٹر کی جانب سے سال 2020 کی عکاسی کرنے والی تصاویر میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ وہ انڈیا میں روئٹرز کی پکچرز ٹیم کی سربراہ بھی تھے۔ جبکہ دانش صدیقی کا شمار دنیا کے بہترین فوٹو جرنسلٹوں میں ہوتا تھا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں ایک مرتبہ پھر طالبان کا کنٹرول قائم ہوتا نظر آ رہا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں شدید جنگ کا دور جاری ہے۔ ایسے حالات میں دنیا بھر کے صحافی یہاں موجود ہیں اور اس جنگ کو کور کر رہے ہیں۔