سکرپٹ رائٹرز نے مکس اچار ٹائپ اتحاد بنوا کر سسٹم کو مزید کمزور کر دیا

اس سارے کھیل تماشے میں ہار پاکستان رہا ہے جس کا نوجوان یہاں سے مایوس ہو چکا ہے۔ بے انتہا مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ سرحدوں کے حالات بھی اچھے نہیں۔ کیا ایک کمزور وفاقی حکومت ان چیلنجز کا مقابلہ کر پائے گی؟

سکرپٹ رائٹرز نے مکس اچار ٹائپ اتحاد بنوا کر سسٹم کو مزید کمزور کر دیا

اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں میں ذاتی انا اور اقتدار کی ہوس کی اس لڑائی میں ہار پاکستان رہا ہے۔ الیکشن کے سرکاری نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آزاد ممبران قومی اسمبلی میں 92 سیٹوں کے ساتھ سرفہرست جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن 80 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ن لیگ کو مخصوص نشتیں ملنی ہیں جبکہ آزاد ممبران جو کہ دراصل تحریک انصاف ہی کے ہیں، ان کو انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نشستیں نہیں مل سکتیں چاہے وہ کسی بھی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ بظاہر تحریک انصاف کے جیتے ممبران مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مخصوص نشتیں مل سکتی ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے پاس وزارت عظمیٰ کے لیے مطلوبہ نمبرز نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کو جب تک پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں سپورٹ نہ کرے، وہ اپنا وزیر اعظم نہیں لا سکتی۔ یہی مسئلہ ن لیگ کے ساتھ ہے۔ مخصوص نشتیں ملنے اور پاکستان مسلم لیگ ق، آئی پی پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ایف کی حمایت کے باوجود یہ بھی وزارت عظمیٰ کے لیے مطلوبہ نمبرز نہیں پورے کر سکتی۔ پی پی پی کی سپورٹ ن لیگ کے لئے بھی ضروری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو اپنی حمایت کا تو کہا ہے لیکن بدلے میں سارے آئینی عہدے مانگ لیے ہیں۔ یعنی اقتدار تو ملے گا، لیکن اپوزیشن بھی رہے گی۔ اقتدار کے مزے بھی اور اپوزیشن کی اپوزیشن بھی۔ اس مک مکاؤ میں جو بھی وزیر اعظم بنے گا، وہ تاریخ کا کمزور ترین وزیر اعظم ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے فیصلے کروائے گی جبکہ اتحادی پارٹیوں کی بلیک میلنگ الگ۔

اب اگلا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اگلے کچھ مہینوں میں آئی ایم ایف کے پاس پھر جانا ہے، یعنی بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ کیا ایک کمزور وفاقی حکومت یہ سخت فیصلے لے سکے گی؟ ہرگز نہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سارا قصور ان سیکٹرز کا ہے جنہوں نے الیکشن نما سلیکشن کے نام پر ایک ایسا رائتہ بنا دیا ہے جو نگلا نہیں جا رہا۔ اگر آپ نواز شریف کو واپس لائے ہی وزیر اعظم بنوانے کے لیے تھے تو کم سے کم سادہ اکثریت تو لے کر دیتے تا کہ کم از کم وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ہی بلیک میل ہوتا، 80 سیٹیں دے کر اسے دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی منتیں کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔

یہی کچھ تحریک انصاف کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ اسے بھی سادہ اکثریت سے محروم کر دیا گیا۔ اب وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے اتحاد کرے گی نہیں، جبکہ باقی سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی نمائندگی اتنی ہے نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنا سکیں۔ اگر کوئی بھی پارٹی وفاقی حکومت مک مکاؤ کے ذریعے بناتی ہے تو اسے تحریک عدم اعتماد کا خوف ہمیشہ رہے گا۔ اس خوف کے سہارے ایک کمزور وفاقی حکومت کیسے چل سکے گی؟

اس سارے گند میں ہار کون رہا ہے؟ اس سارے کھیل تماشے میں پاکستان ہار رہا ہے جس کا نوجوان یہاں سے مایوس ہو چکا ہے۔ بے انتہا مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ بارڈر کے حالات بھی اچھے نہیں۔ ہمسایہ ممالک نے پاکستان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے جبکہ طالبان دوبارہ پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ایک کمزور وفاقی حکومت ان چیلنجز کا مقابلہ کر پائے گی؟ یہ سوال اس ملک کے اصل حکمرانوں سے لازمی پوچھا جانا چاہیے۔

سیاست میں ہمیشہ ڈائیلاگ اور مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اگر تحریک انصاف نے اس اصول پر عمل کیا ہوتا تو آج وہ آسانی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے وفاقی حکومت بنا سکتی تھی لیکن سیاست دان اقتدار میں آ کر انتقام کی آگ میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ مفاہمت کا راستہ بند کر دیتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔

خدارا پاکستان پر رحم کھائیے۔ حالات یہ ہیں کہ سردیوں میں ایک عام آدمی کا بجلی کا بل 10 ہزار تک آ رہا ہے، وہ گرمیوں میں بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا؟ جبکہ ابھی ہم نے دوبارہ بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ اگر آپ کو پاکستان پر ترس نہیں آتا تو خدارا کم سے کم اپنا سکرپٹ رائٹر ہی بدل لیں۔ کیوں آپ نے اپنی سلطنت قائم رکھنے کے لیے پورے پاکستان کو آگے لگا رکھا ہے؟

اس سارے سیاسی مکس اچکار کا ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنائے، تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں، پیپلزپارٹی سندھ میں، جبکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ مخلوط حکومت بنائیں۔ وفاقی حکومت کے لیے تمام سیاسی جماعتیں مل کر قومی حکومت بنائیں اور پاکستان کو مل کر ان مسائل سے نکالیں۔ قومی اسمبلی کا دوبارہ الیکشن ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ سارے سٹیک ہولڈرز اور سیاست دان یہ بات یاد رکھیں کہ سب سے پہلے پاکستان آتا ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں۔

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔